رسائی کے لنکس

بھارتی وزیرِاعظم کے دورۂ پاکستان و افغانستان کے مقاصد


فائل
فائل

تجزیہ کار پرامید ہیں کہ افغانستان، پاکستان اور بھارت کے درمیان رابطوں کے فروغ اور خطے میں بڑھتے ہوئی معاشی سرگرمیوں کے باعث تینوں ممالک کے تعلقات معمول پر آسکتے ہیں۔

بھارت کے وزیرِ اعظم نریندر مودی کے افغانستان کے طے شدہ اور پاکستان کے اچانک دوروں کے بارے میں تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ ان دوروں کا مقصد جنوبی ایشیا میں سیاسی صورتِ حال کو معمول پر لانا ہے۔

نریندر مودی روس کے دورے سے واپسی پر جمعے کو کابل پہنچے تھے جہاں انہوں نے افغان پارلیمان کی نئی عمارت کا افتتاح کیا تھا۔

یہ عمارت بھارت کے تعاون سے تعمیر کی گئی ہے جس پر آنے والی نو کروڑ امریکی ڈالر کی لاگت تمام کی تمام بھارتی حکومت نے برداشت کی ہے۔

افتتاحی تقریب سے خطاب میں نریندر مودی نے افغانستان کے لیے بھارتی امداد جاری رکھنے کے عزم کا اعادہ کیا تھا اور پاکستان سمیت تمام علاقائی طاقتوں پر زور دیا تھا کہ وہ افغانستان میں قیامِ امن کے لیے مل کر کام کریں۔

افغانستان پر 2001ء میں امریکی حملے اور اس کے نتیجے میں طالبان حکومت کےخاتمے کے بعد سے افغانستان میں بھارت کے اثر و رسوخ میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔

بھارت نے جنگ کے بعد سے افغانستان کی تعمیرِ نو پر دو ارب ڈالر کی خطیر رقم خرچ کی ہے جس سے سڑکوں اور اسپتالوں سمیت کئی بڑے منصوبوں پر یا تو کام ہورہا ہے یا وہ مکمل ہوچکے ہیں۔

افغانستان میں بھارت کے اس بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ اور سرگرمیوں سے پڑوسی ملک پاکستان خاصی تشویش میں مبتلا رہتا ہے جو دونوں ملکوں کے درمیان واقع ہے اور جس کے بھارت اور افغانستان دونوں کے ساتھ ہی تعلقات اتار چڑھاؤ کا شکار رہتے ہیں۔

پاکستان کی حکومت اور فوج الزام عائد کرتی ہے کہ بھارت افغانستان سے متصل پاکستانی علاقوں خصوصاً بلوچستان میں علیحدگی پسندی کی تحریک کو ہوا دے رہا ہے اور اس سلسلے میں جنوبی افغانستان میں موجود بھارتی قونصل خانے اہم کردار دا کر تے ہیں۔ لیکن بھارت اور افغانستان کی حکومتیں اس الزام کی تردید کرتی آئی ہیں۔

جمعے کو افغانستان کے دورے کی تکمیل کے بعد نئی دہلی آتے ہوئے بھارتی وزیرِاعظم نے اچانک لاہور میں مختصر قیام کیا تھا جہاں انہوں نے اپنے پاکستانی ہم منصب میاں نواز شریف سے ملاقات کی تھی۔

بھارتی وزیرِاعظم کے اس دورے کا پہلے سے اعلان نہیں کیا گیا تھا اور یہ کسی بھی بھارتی وزیرِاعظم کا گزشتہ 11 برسوں میں پاکستان کا پہلا دورہ تھا۔

افغان حکام کا موقف رہا ہے کہ پاکستان اور بھارت – دونوں ملکوں کے ساتھ ان کے تعلقات باہمی مفادات کی بنیاد پر قائم ہیں اور کسی ایک ملک سے تعلق کو کسی دوسرے ملک سے دشمنی پر محمول نہیں کرنا چاہیے۔

بھارت کے سابق وزیرِاعظم من موہن سنگھ کی حکومت کی شعوری کوشش رہی تھی کہ افغانستان اور بھارت کے تعلقات سول میدان تک ہی محدود رہیں اور عسکری معاملات میں تعاون سے گریز کیا جائے تاکہ پاکستان کسی بے جا تشویش کا شکار نہ ہو۔

لیکن نریندر مودی نے حکومت سنبھالنے کے بعد مختلف حکمتِ عملی اختیار کی ہے اور اب بھارتی حکومت فوجی میدان میں بھی افغان حکومت کو نمایاں مدد اور تعاون فراہم کررہی ہے۔

افغان سکیورٹی فورسز خصوصاً مسلح افواج کے سیکڑوں افسران اور اہلکار بھارتی فوجی مراکز میں تربیت پارہے ہیں جب کہ حال ہی میں افغان حکومت نے روس سے جو تین 'ایم آئی-25' جنگی ہیلی کاپٹر خریدے ہیں ان کی قیمت بھی بھارتی حکومت نے ادا کی ہے۔

اپنے دورۂ کابل کے دوران نریندر مودی نے افغانستان کے لیے بھارتی امداد کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ ان کا ملک ترقی کے سفر میں افغانستان کی مدد اور اعانت کر رہا ہے۔

کابل میں پارلیمان کی عمارت کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے نریندر مودی نے بطورِ خاص پاکستان کے تحفظات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے افغان حکام اور عوام سے کہا تھا کہ وہ بھارت اور افغانستان میں موجود اس کے قونصل خانوں کے بارے میں سنی سنائی باتوں پر یقین نہ کریں۔

ان کا کہنا تھا کہ بھارت افغانستان میں کسی سے مقابلہ کرنے اور اختلافات کو ہوا دینے نہیں بلکہ روشن مستقبل کی بنیاد ڈالنے اور جنگ کا شکار افغانوں کی زندگیوں کی تعمیرِ نوکرنے آیا ہے۔

جنگ کے بعد 2002ء میں افغانستان میں نئی حکومت کے قیام کے بعد سے کابل پاکستان اور افغانستان کے ساتھ اپنے تعلقات کو متواز ن بنانے کی کوششیں کرتا رہا ہے لیکن اس کی یہ کوششیں زیادہ بارآور ثابت نہیں ہوسکیں۔

بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ افغانستان میں بھارت کی موجودگی کے سبب پاکستان طالبان کے بعض گروہوں خصوصاً حقانی نیٹ ورک کی مدد کرتا رہا ہے یا کم از کم پاکستان میں ان کے ٹھکانوں سے اغماض برتتا آیا ہے۔

لیکن اب بیشتر تجزیہ کار پرامید ہیں کہ افغانستان، پاکستان اور بھارت کے درمیان رابطوں کے فروغ اور خطے میں بڑھتے ہوئی معاشی سرگرمیوں کے باعث تینوں ممالک کے تعلقات معمول پر آسکتے ہیں۔

کابل میں مقیم تجزیہ کار سید فرہاد ہاشمی کا خیال ہے کہ پاکستان اب سنجیدگی سے سے افغانستان میں استحکام کا خواہش مند ہے کیوں کہ اب یہ خود پاکستان کے لیے ضروری ہوگیا ہے۔

ان کے بقول پاکستان کی بڑھتی ہوئی توانائی کی ضروریات اور وسطِ ایشیا سے گیس اور بجلی کی درآمد کے مجوزہ منصوبوں نے اسلام آباد کا افغانستان پر انحصار بڑھادیا ہے اور خطے میں آنے والی تبدیلیوں اور معاشی تعاون میں اضافے نے پاکستانی اشرافیہ کو اپنی خارجہ پالیسی میں تبدیلی پر مجبور کیا ہے۔

حال ہی میں پاکستان، افغانستان، بھارت اور ترکمانستان نے ایک گیس پائپ لائن بچھانے کا معاہدہ کیا ہے جس پر 10 ارب ڈالر کی لاگت آئے گی۔

افغانستان سے گزرنے والی 1800 کلومیٹر طویل اس پائپ لائن کے ذریعے ترکمانستان پاکستان اور بھارت کو گیس برآمد کرے گا۔

XS
SM
MD
LG