رسائی کے لنکس

2015ء میں دی گئی پھانسیاں پاکستان کی تاریخ میں سب سے زیادہ: ایمنسٹی


سابق سینیٹر اور انسانی حقوق کمیشن کے سابق چیئرمین افراسیاب خٹک کہتے ہیں کہ سخت ترین سزا کی نسبت قانون کی مضبوط گرفت زیادہ اہم ہے۔

انسانی حقوق کی ایک عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے پاکستان میں موت کی سزاؤں پر عملدرآمد میں اضافے پر تشویش کا اظہار کیا ہے، اور اس کے مطابق گزشتہ سال 326 مجرموں کو پھانسی دی گئی جو پاکستان میں کسی بھی ایک سال میں دی گئی پھانسیوں کی سب سے زیادہ تعداد ہے۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ 2015ء میں جن افراد کی سزائے موت پر عمل درآمد کیا گیا اُن میں سے 90 فیصد سزائیں ایران، سعودی عرب اور پاکستان میں دی گئیں۔

عالمی تنظیم کے مطابق پاکستان میں جن 326 افراد کو پھانسی دی گئی اُن میں سے اکثریت ایسے افراد کی نہیں تھی جنہیں دہشت گردی میں ملوث ہونے پر سزائے موت سنائی گئی ہو۔

2015ء میں دی گئی پھانسیاں پاکستان کی تاریخ میں سب سے زیادہ: ایمنسٹی
please wait

No media source currently available

0:00 0:03:43 0:00

پاکستان میں حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کے رکن اور قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے اُمور خارجہ کے چیئرمین اویس لغاری نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ پاکستان کو غیر معمولی حالات کا سامنا ہے اور اُسی کی بنیاد پر ملک میں سزائے موت پر عمل درآمد کو بحال کیا گیا۔

’’جو حقیقت ہے وہ تو ہے کہ پھانسیوں کی تعداد بڑھی ہے، پاکستانکے اندر اس سے پہلے اس پر عارضی پابندی تھی۔ لیکن تشویش کے اظہار سے پہلے ایمنسٹی جیسے اداروں کو (ان) ملکوں کے زمینی حقائق کو بھی دیکھنا چاہیئے۔ ہم نے جو پھانسیوں کا سلسلہ دوبارہ شروع کیا وہ سوچ سمجھ کر کیا، یہ ایک مشکل فیصلہ تھا۔‘‘

سابق سینیٹر اور انسانی حقوق کمیشن کے سابق چیئرمین افراسیاب خٹک کہتے ہیں کہ سخت ترین سزا کی نسبت قانون کی مضبوط گرفت زیادہ اہم ہے۔

’’یہ بحث پاکستان میں بھی اور باقی ساری دنیا میں بھی ہے پھانسی کی سزا کے بارے میں، (اس کی) افادیت کے بارے میں۔ جو انسانی حقوق سے ہمدردی رکھنے والے لوگ ہیں ان کا خیال ہے کہ پھانسی کی سزا نہیں ہونی چاہیے لیکن بہت سارے اور لوگ ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ یہ سزا ہونی چاہیئے ۔۔۔ اصل میں سزا کی درشتگی جرائم کو نہیں روک سکتی بلکہ گرفت ہونی چاہیے کہ مجرموں کو یہ پتہ ہونا چاہیئے کہ چھوٹ نہیں ملے گی۔‘‘

واضح رہے کہ پاکستان میں 2008 سے 2014ء تک سزائے موت پر عمل درآمد پر غیر اعلانیہ پابندی تھی۔ تاہم دسمبر 2014ء میں پشاور میں آرمی پبلک اسکول پر دہشت گردوں کے ایک مہلک حملے میں بچوں سمیت لگ بھگ 150 افراد کی ہلاکت کے بعد حکومت نے سزائے موت پر عمل درآمد پر عائد پابندی ختم کرنے کا اعلان کر دیا۔

پاکستان میں پہلے یہ کہا گیا تھا کہ صرف دہشت گردی اور سنگین جرائم میں ملوث قیدیوں کی سزائے موت پر عمل درآمد کیا جائے گا لیکن بعد میں دیگر جرائم میں بھی عدالتوں سے سزائے موت پانے والے قیدیوں کی سزاؤں پر عمل درآمد شروع کر دیا گیا۔

مجرموں کو پھانسی دینے کے علاوہ حکومت نے دہشت گردی کے جرائم میں گرفتار ملزمان کے خلاف تیزی سے عدالتی کارروائی چلانے کے لیے دو سال کے لیے فوجی عدالتیں قائم کیں، جہاں درجنوں مجرموں کو سزائے موت سنائی جا چکی ہے۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل نے کہا ہے کہ 2014 کے مقابلے میں سال 2015ء میں عالمی سطح پر سزائے موت پر عمل درآمد میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔ایمنسٹی کی رپورٹ کے مطابق 2015ء میں مختلف ممالک میں 1,634 افراد کی سزائے موت پر عمل درآمد کیا گیا اور 1989 کے بعد کسی ایک سال میں سزائے موت پر عمل درآمد کی یہ سب سے بڑی تعداد تھی۔

XS
SM
MD
LG