رسائی کے لنکس

پاک امریکہ کشیدہ تعلقات سے دہشت گردی کے خلاف جنگ متاثر ہوسکتی ہے: پرویز مشرف


پاک امریکہ کشیدہ تعلقات سے دہشت گردی کے خلاف جنگ متاثر ہوسکتی ہے: پرویز مشرف
پاک امریکہ کشیدہ تعلقات سے دہشت گردی کے خلاف جنگ متاثر ہوسکتی ہے: پرویز مشرف

امریکی تاریخ کے بد ترین دہشت گرد حملے کو اس ماہ دس سال ہونے والے ہیں۔ لیکن یہ واقع صرف امریکہ ہی نہیں پاکستان کی تاریخ میں بھی ایک نیا موڑ ثابت ہوا۔ جہاں آج انتہا پسندی کے سد باب کے لیئے جاری کوششوں میں پاکستانی قوم اور پاک فوج بہت سی قربانیاں دے چکی ہیں۔ لیکن پاکستان کےسابق صدر جنرل پرویز مشرف کا کہنا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں دس سال کے بعد طالبان، القاعدہ کی نسبت زیادہ مضبوط ہوگئےہیں۔ وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے جنرل مشرف کا کہنا تھا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں عالمی اتحاد کا حصہ بننا ایک درست فیصلہ تھا کیونکہ کوئی بھی پاکستان میں طالبان طرزِ حکومت نہیں دیکھنا چاہتا تھا۔

گیارہ ستمبر کے دہشت گرد حملوں کے بارے میں سابق صدر کا کہناتھا کہ ان حملوں میں بڑا کردار القاعدہ کا تھا۔ پوری دنیا سے القاعدہ کے ہزاروں یا سینکڑوں جنگجو پہلے افغانستان اور پھر بعد میں پاکستان کے سرحدی علاقوں اور پھر ہمارے شہروں میں آ گئے۔ مگر اب صورتِ حال بدل گئی ہے۔ القاعدہ کا کردار کم ہو گیا ہے اور 2004ءکے بعد طالبان ابھر کے سامنے آئے اور اب وہی یہ حملے کر رہے ہیں اور القاعدہ کے مقابلے میں زیادہ مضبوط ہو گئے ہیں۔ اس صورت حال میں پیچیدگی پاکستانی معاشرے میں انتہاپسند عناصر کی موجودگی کے باعث پیدا ہوئی ہے،کیونکہ جوتنظیمیں جو پہلے بھارت کے خلاف کشمیر میں لڑ رہی تھیں اب طالبان کے ساتھ شامل ہو رہی ہیں۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ آیا کیا دنیا آج گیارہ ستمبر 2001 کے مقابلے میں زیادہ محفوظ ہے۔تو ان کا جواب تھا کہ میں یقین کے ساتھ یہ نہیں کہہ سکوں گا۔ نہیں ۔لیکن میرا خیال ہے اب یہ زیادہ غیر محفوظ ہے۔

دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی شرکت کے ان کے فیصلے پر تنقید کرنے والے سیاسی مخالفین کے بارے میں سابق صدر پرویز مشرف کا کہناتھا کہ دہشت گردی کے خلاف اتحاد میں شامل ہونے کا ہمارا فیصلہ پاکستان کے مفاد میں تھا۔ سوال یہ تھا کہ کیا ہم پاکستان میں بھی طالبان کو ابھرتے دیکھنا چاہتے تھے؟ کیا ہمارے عوام اسلام کی وہ تصویر دیکھنے کے لیے تیار تھے جو طالبان زبردستی تھونپ رہے تھے۔مجھے نہیں لگتا ایسا ہے۔ اس لیے پاکستان کے مفاد میں پہلا فیصلہ طالبان کے خلاف ہی جانا تھا۔ کیونکہ ہم پاکستان میں اِس قسم کا کلچر نہیں دیکھنا چاہتے ۔ اور پھر یہ بھی دیکھنا تھا کہ اگر ہم عالمی اتحاد میں شامل نہیں ہوتے تو اس کے کیا نتائج نکل سکتے تھے۔ اِس سے پاکستان پر انتہائی منفی اثرات پڑتے۔ یہ فیصلہ بالکل درست تھا اور جہاں تک میرے آٹھ سال کے اقتدار کا تعلق ہے میرا خیال ہے کہ ہم انتہا پسندی اور دہشت گردی کا کامیابی سے مقابلہ کررہے تھے۔ ہم انہیں کمزور کر رہے تھے اور اِس سمت میں درست حکمتِ عملی پر کارگر تھے۔ پاکستان میں اِن کے حملوں میں اضافہ میرے اقتدار سے ہٹنے کے بعد ہوا ہے۔

سابق پاکستانی صدر سے پوچھا گیا کہ افغانستان میں غیر ملکی افواج کی کمی اور سیکیورٹی کی ذمہ داریاں افغان فورسز کے سنبھالنے سے آیا طالبان کی کارروائیوں میں کمی آئے گی اور کیا پاکستان طالبان کو صدر کر زئی کے ساتھ بات چیت پر آمادہ کرسکتا ہے؟

ان کا جواب تھاکہ طالبان کوئی ایک گروہ نہیں ہے۔ ملا عمر ،گلبدین حکمت یار ، سراج حقانی ، پاکستان تحریک طالبان، تحریکِ نفاذِ شریعتِ محمدی، بیت الله محسود جو ہلاک ہوگیا ہے اور اب حکیم الله اس کا سربراہ ہے، سب خود کو طالبان کہتے ہیں مگر وہ سب ایک ساتھ نہیں ہیں۔ اس لیے یہ ضروری ہے کہ ہم پشتونوں سے بات کریں اور انہیں طالبان سے علیحدہ کریں۔ اور اگر کوئی طالبان گروپ لڑائی چھوڑ کر امن کے لیے مذاکرات میں شامل ہونا چاہتا ہے تو ہمیں ان سے بات کرنی چاہیے مگر میں نہیں جانتا کہ کرزئی طالبان کے کس گروپ سے بات کر رہے ہیں۔

پاک امریکہ تعلقات میں پیدا ہونے والی موجودہ کشیدگی کے بارے میں سابق صدر پرویز مشرف کا کہناتھا کہ یہ اچھا نہیں ہے اور مجھے اس پر افسوس ہے ۔ میرے دور میں یہ تعلقات اچھے تھے۔ یقناً دونوں ملکوں کے درمیان اعتماد اور بھروسے کا فقدان ہے ۔ اِس میں اضافہ اُس وقت اضافہ ہوا جب اسامہ بن لادن ایبٹ آباد میں پایا گیا۔ امریکہ اِسے بے اعتباری سمجھتا ہے جب کہ پاکستان کا نظریہ ہے کہ اسامہ بن لادن کو ملٹری آپریشن کے ذریعے ہلاک کر کے ہماری سرحدی خود مختاری کے خلاف ورزی کی گئی ہے۔ تو میرا خیال ہے کہ یہ وہ چیزیں ہیں جنہیں دونوں ملکوں کو حل کرنا چاہیے۔ اور یہی دہشت گردی کے خلاف جنگ کےمفاد میں ہے بصورت دیگراس صورت حال سے امریکہ پاکستان اور پوری دنیا کو اس کا نقصان ہو گا اور دہشت گردی کے خلاف ہماری مشترکہ کوششیں کمزور ہوں گی۔

اس سوال کے جواب میں کہ واشنگٹن کے بعض حلقوں کا کہناہے کہ پاکستان غیر ضروری طورپر بھارت کو اپنا دشمن سمجھتا ہے، جنرل پرویز مشرف کا کہنا تھا کہ اس حقیقت کو جھٹلایا نہیں جا سکتا کہ ہمیں اپنے طاقتور مشرقی ہمسائے سے خطرہ درپیش ہے۔ 1948ءکے بعد سےہم نے تین جنگیں لڑی ہیں۔ اس خطرے سے مقابلے کے لیے ہمیں اپنی فوجی قوت مضبوط بنانی پڑرہی ہے۔ مگر میں ہمیشہ سے اِس بات کا قائل ہوں کہ دنیا اور امریکہ سے ہمارے تعلقات بھارت کی بنیاد پر نہیں ہونے چاہیں۔ دوسرے ممالک سے ہمارے تعلقات باہمی بنیادوں پر ہونے چاہیں یہ سوچے بغیر کہ اُن ممالک کے بھارت کے ساتھ کیسے تعلقات ہیں۔ پاکستان پر اِس کا اثر تب پڑتا ہے جب بھارت اور امریکہ کے تعلقات پاکستان اور امریکہ کے تعلق کو متاثر کرتے ہیں۔ یہ نہیں ہونا چاہیے۔ جب بھی دونوں ملکوں میں پیچیدگیاں بڑھی ہیں تو جنگ کا خطرہ ہمیشہ بھارت کی طرف سے پید اکیا گیا ہے نہ کہ پاکستان کی طرف سے۔

XS
SM
MD
LG