رسائی کے لنکس

ناپا تھیڑ، نئے سیزن کا آغاز کامیڈی ڈرامے سے ہوگا


مولیئر کے لکھے ہوئے کلاسک کامیڈی ڈرامے ’ٹاٹیف‘ میں معاشرتی برائیوں کی نشاندہی کی گئی ہے۔ لیکن، طنز و مزاح کی چاشنی میں لپیٹ کر۔ ’ٹاٹیف‘ ماخوذ شکل میں ناپا میں 11ستمبر سے پیش کیا جائے گا

کراچی۔۔ پاکستان میں جب بھی تفریحی دنیا کو ایک نیا جنم دینے کی بات ہوگی اس میں فلموں اور تھیٹر کی بحالی کے لئے خدمات انجام دینے والے اداروں کا ذکر سنہری الفاظ میں درج ہوگا۔۔ اور جس شہر کو اس حوالے سے اولین درجہ ملے گا ان میں کراچی اور اس کے ایک ادارے ’ناپا‘ یعنی نیشنل اکیڈمی آف پرفارمنگ آرٹ کے نام ضرور شامل ہوں گے۔

’ناپا‘ کے پلیٹ فارم سے کئی کلاسک ڈرامے اسٹیج کئے جاچکے ہیں جن کے ذریعے نوجوان ٹیلنٹ نکھر کر سامنے آیا ہے۔ اگلے ہفتے ایسے ہی ایک اور کھیل ’ٹاٹیف‘کے ساتھ ’ناپا‘ کے نئے تھیڑ سیزن کا آغاز ہونے والا ہے۔

مولیئر کے لکھے ہوئے کلاسک کامیڈی ڈرامے ’ٹاٹیف‘ میں معاشرتی برائیوں کی نشاندہی کی گئی ہے۔ لیکن، طنز ومزاح کی چاشنی میں لپیٹ کر۔

’ٹاٹیف‘ماخوذ شکل میں ناپا میں 11ستمبر سے پیش کیا جائے گا۔ اس حوالے سے ناپا اکیڈمی کراچی میں پریس بریفنگ منعقد ہوئی جس سے نیشنل اکیڈمی آف پرفارمنگ آرٹ کے ڈائریکٹر ایڈمنسٹریشن اینڈ پروگرام ارشد محمود، سینئر ایکٹر اور ڈائریکٹر راحت کاظمی، ’ٹاٹیف‘ کے ڈائریکٹر فواد خان ہیں، ہیرو ذکی اللہ، مصنف اور دیگر اداکار شامل تھے۔

اس موقع پر فواد خان کا کہنا تھا کہ ’گو کہ یہ ڈرامہ پہلی بار کئی سال قبل لکھا اور پیش کیا گیا تھا۔ لیکن، اس ڈرامے کی ایک ایک لائن آج کے پاکستانی معاشرتی رویوں اور سوسائٹی کی منظر کشی کرتی دکھائی دیتی ہے۔‘

ویٹرن اداکار ارشد محمو د کا کہنا ہے کہ ’ناپا نے اس بار کوشش کی ہے کہ معاشرے میں پھیلی برائیوں کی نشاندہی مزاحیہ انداز میں کی جائے۔ ’ٹاٹیف‘ کا اردو میں ترجمہ نہایت عمدگی سے خالد احمد نے کیا ہے۔یہ دوسرا سال ہے کہ ہم کامیڈی پلے کر رہے ہیں۔ اس سے قبل ’سو دن چور کے‘ کیا تھا۔‘

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا ’اسے سلیکٹ کرنے کا مقصد یہی ہے کہ ڈرامہ ہمارے معاشرے کی کہانی ہے۔‘

ایک اور سوال پر ان کا کہنا تھا کہ ’تھیٹر کی ہمارے یہاں پذیرائی کچھ کم ہے یہی وجہ ہے کہ 200 سیٹیں بھی پوری نہیں بھرتیں۔ رواج یہ پڑ گیا ہے کہ لوگ ٹی وی کے سامنے سے نہیں ہٹتے۔ انہیں گھر سے نکالنا بہت مشکل کام ہے۔ پھر جس طرح شہر میں امن و امان کی صورتحال ہے اس میں لوگ گھر سے نکلیں بھی تو کیوں کر۔‘

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’شہر میں چار پانچ تھیٹر ہونے چاہئیں جیسے دہلی اور ممبئی میں ہیں۔ حالات کچھ بہتر ہورہے ہیں اور لوگوں میں ذوق ابھررہا ہے امید ہے کہ جلد ہی ایسا ہوگا۔ شہر فلموں کے حوالے سے سرگرمیوں کا مرکز بن رہا ہے تو تھیڑ کی بھی یہاں لائنیں لگی ہوں گی۔‘

اس سلسلے میں نامور اداکار راحت کاظمی کا کہنا تھا ’ناپا کے بارے میں ایک عام تاثر یہ بن گیا تھا کہ اس کے پلیٹ فارم سے سنجیدہ ڈرامے ہی اسٹیج کئے جاتے ہیں۔ تاہم، ’ٹاٹیف‘ کے ذریعے روایتی ڈگر کے ڈرامے پیش کرنے کا تاثر تبدیل ہوگا۔‘

راحت کاظمی نے یہ پیش گوئی بھی کی کہ ’فلم اور ڈرامے کی طرح بہت جلد پاکستان میں تھیٹر بھی مکمل طور پر بحال ہوجائے گا۔ ہو سکتا ہے ایسا ہونے میں وقت لگے۔ لیکن، تھیٹر اپنی پوری آب و تاب سے بحال ضرور ہوگا۔‘

ٹاٹیف کے ہیرو اور ناپا کے تھرڈ ائیر کے طالبعلم ذکی اللہ کا کہنا تھا ’ڈرامہ اس سے پہلے ناپا میں ’ان ہاوٴس‘ پیش کیا جا چکا ہے۔ لیکن، اس بار اس کا پیمانا تھوڑا مختلف ہوگا۔‘

ڈرامے کے ڈائریکٹر فواد خان نے کہا کہ، ’اس پلے کے کردار کہیں نہ کہیں آپ کو معاشرے میں ضرور نظر آتے ہیں۔ یہ کہانی ہمارے معاشرے کی عکاس ہے۔ اسے میں کامیابی کے آئینے میں دیکھ رہا ہوں۔میں تھیٹر کے مستقبل سے مایوس نہیں ہوں یہی ناپا ہی ہے جس کی بدولت تھیڑ کی صورتحال بہتر ہورہی ہے اور ایسا بھی ہوتا ہے بعض اوقات کہ تھیڑ کم پڑ جاتے ہیں۔

ٹاٹیف‘ کی کہانی
’ٹاٹیف‘ ناپا آڈیٹوریم میں 11 ستمبر سے20 ستمبر تک اسٹیج کیا جائے گا۔ اس کی کہانی اخلاقیات کا ڈھونگ رچاکر سیدھے سادھے لوگوں کو آسانی سے ’الو‘ بنا لینے والے بابا جعلی نوس کے گرد گھومتی ہے۔

بابا نوس ایک ایسا شخص ہے جس نے مذہب کا جامہ پہن کر شہر کے ایک رئیس، اعظم کو اپنے چنگل میں گرفتار کر رکھا ہے۔ بھولا بھالا اعظم اس حد تک اس کے جال میں پھنس چکا ہے کہ ناصرف اپنی جائیداد اس کے نام کرنے کو تیار ہوجاتا ہے بلکہ اپنی معصوم بچی کی شادی بھی اس سے کرنے کو اپنی خوش نصیبی سمجھتا ہے، جبکہ عادت سے مجبور جعلی بابا، اعظم کی بیو ی کو رجھانے نے کا کوئی موقع بھی ہاتھ سے نہیں جانے دیتا۔

بابا جعلی نوس اپنے مقصد میں کامیابی کے لئے کیا کیا ہتھکنڈے استعمال کرتا ہے، اس کی ہوس اس سے کیا کیا کرواتی ہے، یہی اس ڈرامے کا اصل جز ہے۔

’ٹاٹیف‘ کی کاسٹ میں فرحان عالم، مہوش فاروقی، حسن رضا، حماد صدیقی، ذکی اللہ، اسماء، مندرا والا اور مزینہ ملک شامل ہیں۔ اس کے مصنف مولیئر ہیں۔ لیکن، اس کا اردو ترجمہ خالد احمد نے کیا ہے جبکہ ہدایات دی ہیں فواد خان نے۔

XS
SM
MD
LG