رسائی کے لنکس

نیٹو افغان پولیس کی تربیت میں مصروف


افغان پولیس
افغان پولیس

افغانستان کی پولیس کو رشوت ستانی، نااہلی اور غیرتربیت یافتہ ہونے کے الزامات کا سامنا ہے۔ نیٹو اسے ایک قابل بھروسہ فورس بنانے کے لیے تربیت فراہم کررہی ہے۔

ایک تربیتی مرکز میں پولیس اہل کار ایک مشق کے دوران پرتشدد مظاہرے کو روکنے کے لیے اپنی ڈھال پر ڈنڈے برسانے کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ یہ افغان پولیس کے وہ اہل کار ہیں، جنہیں مشکل صورت حال سے نمٹنے کے لیے تیار کیا گیاہے۔

اٹلی کے بریگیڈئیر جنرل کارمرلو برگیئو انہیں تریبت دے رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ افغانستان کو اس وقت ایسے ہی اہل کاروں کی ضرورت ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ وہ اس کام کے لیے بہت موزوں ہیں ،کیونکہ وہ پولیس مین ہیں۔ چنانچہ ان کا ذہن بھی ایک پولیس والے جیسا ہونا چاہیے۔ اگرچہ انہیں لوگوں کے معاملات سے نمنٹا ہوتا ہے ،لیکن ان کی ایک طرح کی فوجی تربیت بھی ہونی چاہیے۔

افغانستان میں پولیس پر بڑے پیمانے پر رشوت ستانی میں ملوث ہونے کا الزام عائد کیا جاتا ہے اور یہ کہا جاتا ہے کہ وہ پڑتالی چوکیوں یا سرحد پر رشوت کے ذریعے مال بناتے ہیں۔ نومبر میں افغان پولیس اہل کاروں نے خود کو تربیت دینے والے پانچ برطانوی فوجیوں کو ہلاک کردیاتھا۔ ان کے کمانڈر نے حال ہی میں ایک برطانوی اخبار کو بتایا ہے کہ پولیس کی رشوت خوری ، شورش کے لیے تیل کا کام کررہی ہے۔

چھ ماہ قبل ، نیٹو نے افغان پولیس کو تریبت دینے کے لیے ایک نئی کمانڈ قائم کی تھی اور ان کے عہدے داروں کا کہنا ہے کہ وہ پولیس میں سے رشوت ستانی اور خراب نظم و ضبط کے کلچر کا تدارک کرنے کے لیے کام کررہے ہیں۔

اس سال کے شروع میں پولیس کی تنخواہیں بڑھائی گئی تھیں۔ اب زیادہ تر اہل کاروں کو بینک کے ذریعے ادائیگی کی جارہی ہے۔ چنانچہ اب کوئی بھی پولیس اہل کاروں کے ہاتھ میں ان کی تنخواہ جانے سے قبل اس ان سے کچھ بٹور نہیں سکتے۔

مسعود فاروار ریڈیو سے وابستہ ہیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ نیٹو نے جو کام شروع کیا ہے ، وہ محض ایک آغاز ہے اور ایک لمبا سفر ہنوز باقی ہے۔وہ کہتے ہیں کہ میرا خیال ہے کہ کچھ تبدیلی آئی ہے لیکن میں اسے نمایاں تبدیلی نہیں سمجھتا۔میں یہ کہوں گا کہ عوام پولیس سے زیادہ فوج پر بھروسہ کرتے ہیں۔ پولیس کو ابھی تک نااہل، رشوت خور اور لٹیراسمجھا جاتا ہے۔

پولیس اہل کاروں کی تربیت کے انچارج میجر جنرل مائیک وارڈ ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ تریبت کے ذریعے پولیس کی اصلاح ممکن ہے۔ان کا کہنا ہے کہ عوام کی نظر میں پولیس نااہل، رشوت خور اور ڈاکوہے ۔ وہ انہیں غیر تربیت یافتہ بھی سمجھتے ہیں۔ ہم تربیت والے حصے پر کام کررہے ہیں۔

غالباً تنخواہوں میں اضافے کی وجہ سے اب زیادہ تعداد میں امیدوار پولیس میں بھرتی کے لیے آرہے ہیں۔پولیس چھوڑنے والوں کی تعداد خاصی بلند رہی ہے۔ امکانی طورپر اس کی وجہ شورش پسندوں کے ہاتھوں پولیس اہل کاروں کی ہلاکتیں اور انہیں ملنے والی دھمکیا ں ہیں ، خاص طورپر جنوبی علاقے قندھار کے آس پاس، جو طالبان کا گڑھ ہے۔ وارڈ کہتے ہیں کہ پولیس کو نیٹو کے ساتھ کام کرنے کی وجہ سے نشانہ بنایا جارہا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ پولیس ان میں سے ایک ہے جسے ہرروز لڑنا پڑتا ہے۔ وہ بڑی تعداد میں ہلاک اور زخمی ہوتے ہیں۔ ان کے خاندانوں کو شدید خطرے اور دھمکیوں کا سامنا کرنا پڑ رہاہے۔

قندھار جانے والے پولیس کے ایک قافلے پر شورش پسندوں نے راستے میں آٹھ بار حملہ کیا۔مگرانہوں نے اپنا اچھی طرح دفاع کیا جو ایک بڑی کامیابی اور فتح ہے۔لیکن نیٹو اور افغان پولیس کے عہدے داروں کا کہنا ہے کہ ایک ایسی پولیس کے لیے جس پر افغانستان بھروسہ کرسکے، ابھی بہت کام باقی ہے۔

XS
SM
MD
LG