رسائی کے لنکس

کراچی میں نئے سال کا جشن بھی ’رسکی‘ ہے


شادمان ٹاوٴن کے ایک رہائشی نوجوان ارشد کا کہنا ہے ’نئے سال کا جشن پوری دنیا میں منایا جاتا ہے، پھر ہم کیوں نہ منائیں۔ اس بہانے ہتھیاروں کو بھی چانچنے کا موقع مل جاتا ہے‘

دنیا کے بے شمار ممالک اور شہروں میں نئے سال کی تقریبات منانے کا اپنا اپنا دلچسپ طریقہ ہے۔ لیکن، جو طریقہ کراچی میں رائج ہے وہ غلط تو ہے ہی، اُس کے نتیجے میں، ہر سال کئی قیمتی جانیں بھی ضائع ہوجاتی ہیں۔

رات کے بارہ بجتے ہی شہر میں اس قدر شدید ہوائی فائرنگ ہوتی ہے کہ کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی۔ ہو سکتا ہے کچھ لوگ آتش بازی بھی کرتے ہوں تو پٹاخے بھی پھوٹتے ہوں، لیکن اس کا رواج کم ہی مشاہدے میں آتا ہے۔ تاہم، اس موقع پر فائرنگ نہ ہو ایسا بہت مشکل نظر آتا ہے۔

شادمان ٹاوٴن کے ایک رہائشی نوجوان ارشد کا کہنا ہے ’نئے سال کا جشن پوری دنیا میں منایا جاتا ہے، پھر ہم کیوں نہ منائیں۔ اس بہانے ہتھیاروں کو بھی چانچنے کا موقع مل جاتا ہے‘

کراچی چونکہ ساحلی شہر ہے، لہذا، شام ہوتے ہی نوجوانوں کے موٹر سائیکل اور گاڑیوں کے قافلے سمندر کی جانب رواں دواں ہو جاتے ہیں۔ گزشتہ کچھ سالوں کی طرح اس سال بھی پولیس ’سی ویو‘ جانے والے نوجوانوں کو ہر قیمت روکنے پر بضد ہے۔

ساحل پر نوجوان موٹر سائیکل کے سائلنسر نکال کر نہ صرف اندھا دھند ڈرائیونگ کرتے ہیں، بلکہ ہوائی فائرنگ کو روکنے والا بھی کوئی نہیں ہوتا۔ ایسے میں حادثات یقینی ہو جاتے ہیں۔ لہذا، 31دسمبر کو سورج ڈھلنے سے قبل ہی پولیس اپنے فرائض ادا کرنے شروع کر دیتی ہے۔

منگل کی شام کے 7بجتے ہی پہلی جنوری کی صبح تک انتظامیہ نے ڈبل سواری پرپابندی عائد کردی ہے، جبکہ پولیس کی جانب سے ’سی ویو‘ جانے والے تمام راستے بند کر دئیے ہیں۔

اس دوران، بغیر سائلنسر موٹر سائیکل چلانے، ہوائی فائرنگ، آتش بازی اور اسلحہ لے کر چلنے یا اسے استعمال کرنے پر بھی مکمل پابندی ہے۔ انتظامیہ نے پہلے ہی اسلحہ ساتھ لے کر چلنے کے تمام اجازت نامے منسوخ کردیئے ہیں۔

منگل کی شام ’وی او اے‘ کے نمائندے نے شہر کے مختلف علاقوں، خاص کر ’سی ویو‘، کلفٹن اور دیگر ساحلی علاقوں کا دورہ کیا۔ اس دوران، نمائندے کو بھی جگہ جگہ پولیس نے روکا اور شناخت طلب کی۔

کلفٹن تھانے کے ایک اہلکار جاوید نے بتایا کہ انہیں کسی کو بھی ساحل پر جانے کی اجازت دینے کا اختیار نہیں۔ ساحل کی طرف جانے والے تمام راستوں کو کنٹینرز اور مختلف قسم کی دوسری رکاوٹیں لگا کر سیل کردیا گیا ہے۔

راستے سیل کر دینے کے سبب کلفٹن، ڈیفنس، گزری اور دیگر ملحقہ علاقوں میں رہنے والوں کو بھی گھر واپسی کے وقت پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کے لئے بغیر شناختی کارڈ پولیس کو یہ یقین دلانا مشکل ہوگیا کہ وہ انہی علاقوں کے رہائشی ہیں۔

ایک اور اہلکار نوید اختر نے بتایا کہ شہر کے وسط سے ہوکر ساحلی علاقوں تک پہنچنے کے لئے تقریبا 32راستے ہیں۔ تمام کوششوں کے باوجود، نوجوان کسی نہ کسی ’چور‘ راستے سے نکل کر ساحل پر پہنچ ہی جاتے ہیں۔ محکمہٴ پولیس تمام اقدامات موجودہ حالات کو پیش نظر رکھ کر ترتیب دیتا ہے۔ لیکن، جو اکثر منچلے نوجوان کسی کی نہیں سنتے۔ لہذا، ایسے میں حادثات کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔
XS
SM
MD
LG