رسائی کے لنکس

اوباما اور دوسری مدت صدارت کی بدشگونی


صدر براک اوباما
صدر براک اوباما

صدر اوباما کہتے ہیں کہ وہ اس چیز سے اچھی طرح واقف ہیں جسے بعض مورخوں نے دوسری مدت کی لعنت کا نام دیا ہے۔

7 نومبر کو انتخاب میں فتح حاصل کرنے کے بعد، صدر اوباما اپنی صدارت کی دوسری چار سالہ مدت کی تیاری کر رہے ہیں۔ لیکن حالیہ تاریخ سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکی صدور کو صدارت کی دوسری مدت راس نہیں آتی ہے۔

انتخاب کی رات شاندار فتح کے بعد، صدر اوباما نے عہد کیا کہ وہ اپنی صدارت کی دوسری مدت میں اپنے حامیوں اور اپنے ناقدین دونوں سے رہنمائی حاصل کریں گے۔

انھوں نے کہا’’چاہے آپ نے مجھے ووٹ دیا ہو یا نہ دیا ہو، میں نے آپ کی بات پر دھیان دیا ہے اور آپ سے کچھ سیکھا ہے اور میں آپ کی بدولت بہتر صدر بن گیا ہوں۔ میں اس عزم اور اس جوش و جذبے کے ساتھ وائٹ ہاؤس واپس جا رہا ہوں کہ مجھے وہاں کام کرنا ہے اور ایک روشن مستقبل میرا انتظار کر رہا ہے۔‘‘

ایوانِ نمائندگان کے اسپیکر جان بوئہنر سمیت، ریپبلیکنز پہلے ہی اس حقیقت کو تسلیم کر چکے ہیں کہ اوباما دوسری مدت کے لیے صدر بن گئے ہیں۔

بوئہنر نے کہا ہے’’جنابِ صدر، یہ آپ کا لمحہ ہے ۔ ہم آپ کی قیادت میں کام کرنے کو تیار ہیں، ڈیموکریٹس یا ریپبلیکنز کی حیثیت سے نہیں بلکہ امریکیوں کی حیثیت سے ۔‘‘

لیکن ریگن کے دور میں وائٹ ہاؤس کے چیف آف اسٹاف کین ڈبرسٹئین کہتے ہیں کہ اگر تاریخ پر نظر ڈالیں ، تو مسٹر اوباما کے لیے صدارت کی دوسری مدت ، ان کی پہلی مدت سے زیادہ مشکل ہو گی۔

’’کم از کم دوسری عالمی جنگ کے بعد سے، دوسری مدت کے صدور کی تاریخ یہ رہی ہے کہ وہ صدارت کے پانچویں یا چھٹے سال میں پٹڑی سے اتر جاتے ہیں۔ دوسری مدت کا ہر صدر کسی نہ کسی اسکینڈل میں پھنس جاتا ہے، اسے کسی مشکل یا غلطی سے سابقہ پڑ جاتا ہے، اور پھر بات بہت آگے نکل جاتی ہے۔‘‘

رچرڈ نکسن نے 1972 میں بھاری اکثریت سے انتخاب جیتا، لیکن دو برس سے بھی کم مدت میں، وہ واٹر گیٹ اسکینڈل کی وجہ سے، استعفیٰ دینے پر مجبور ہو گئے۔

رونلڈ ریگن کی ساکھ کو ایران کنٹرا اسکینڈل سے نقصان پہنچا اور مونیکا لیونسکی کے معاملے کی وجہ سے بل کلنٹن کا مواخذہ ہوا۔
جارج ڈبلو بش پر سخت تنقید ہوئی کیوں کہ سمندری طوفان کٹرینا سے نمٹنے میں ان کی کارکردگی خراب تھی، اور عراق میں جو مسائل پیدا ہوئے وہ ان کا ادراک نہیں کر سکے۔

صدر اوباما کہتے ہیں کہ وہ اس چیز سے اچھی طرح واقف ہیں جسے بعض مورخوں نے دوسری مدت کی لعنت کا نام دیا ہے۔

’’ایسا نہیں ہے کہ چونکہ میں نے ایک انتخاب جیت لیا ہے اس لیے ہر کوئی ہر معاملے میں فوری طور پر مجھ سے اتفاق کرنے لگا ہے۔ میں اس تمام لٹریچر سے اچھی طرح واقف ہوں کہ کئی صدور نے اپنی دوسری مدت میں کس طرح احتیاط کا دامن ہاتھ سے چھوڑ دیا۔ اس معاملے میں ہم بہت محتاط ہیں۔‘‘

یونیورسٹی آف کیلے فورنیا کے تاریخ داں میتھیو ڈالک کہتے ہیں کہ صدر اوباما کا یہ بات سمجھنا کہ پچھلے صدور سے دوسری مدت میں کیا غلطیاں ہوئی تھیں، ان کی دانشمندی کی دلیل ہے۔

’’وہ اس معاملے کو اچھی طرح سمجھتے ہیں اور انھوں نے اشارہ دیا ہے کہ وہ حقیقت پسندی سے کام لینا چاہتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ سب کچھ حاصل نہیں کیا جا سکتا اور وہ ان شعبوں میں کام کریں گے جن کے بارے میں وہ سمجھتے ہیں کہ کام کرنا ممکن ہے۔‘‘

صدر ریگن کے سابق چیف آف اسٹاف ڈبرسٹئین کہتے ہیں کہ صدر کے لیے یہ با ت بھی اہم ہے کہ سیاسی تعلقات قائم کیے جائیں۔

’’ایران کونٹرا کے واقعے کے دوران، لوگ چاہتے تھے کہ صدر ریگن پر یقین کریں ۔ ان کے لیے خیر سگالی موجود تھی ۔ آج تک صدر اوباما نے اس قسم کے مضبوط تعلقات قائم نہیں کیے ہیں ۔ میرے خیال میں اپنی صدارت کی دوسری مدت کے شروع کے مہینوں میں، انہیں اس بنیادی چیز پر توجہ دینی چاہیئے۔‘‘

مختصر یہ کہ اگرچہ صدر اوباما کی دوسری مدت کے ایجنڈے میں، بہت سے منصوبے شامل ہیں، تجزیہ کاروں کو امید ہے کہ وہ ان غلطیوں کو ذہن میں رکھیں گے جو ان کے پیشرو صدور سے سر زد ہوئی تھیں۔
XS
SM
MD
LG