رسائی کے لنکس

صدر اوباما کی سیاسی زندگی کو درپیش چیلنجز


صدر اوباما کی سیاسی زندگی کو درپیش چیلنجز
صدر اوباما کی سیاسی زندگی کو درپیش چیلنجز

ایسا لگتا ہے کہ صدر اوباما کی سیاسی زندگی میں ایک نیا موڑ آنے والا ہے۔ بدھ کے روز وہ امریکی کانگریس کے مشترکہ اجلاس میں اپنی سالانہ اسٹیٹ آف دی یونین تقریر کریں گے جو ملک بھر میں ٹیلیویژن پر دکھائی جا ئے گی۔ ریاست میسا چوسٹس میں سینیٹ کے حالیہ انتخاب میں ریپبلیکن امید وار کی کامیابی سے یہ بات کُھل کر سامنے آ گئی ہے کہ ملک کی سیاسی فضا بدل چکی ہے اور ایک سال پہلے کے مقابلے میں صدر کی مقبولیت میں نمایاں کمی آئی ہے۔

مسٹر اوباما کو صدارت کا حلف اٹھائے ایک سال گزرا ہے۔ رائے عامہ کے جائزوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس عرصے میں امریکہ کے چوالیسویں صدر کے بارے میں ووٹرز کی رائے تبدیل ہو رہی ہے۔ صدر اوباما کا علاج معالجے کے نظام میں اصلاح کا پروگرام امریکی کانگریس میں اٹکا ہوا ہے۔ ذاتی طور پر صدر ووٹرز میں اب بھی مقبول ہیں لیکن ووٹرز کی روز افزوں تعداد ان کی پالیسیوں کو غیر موئثر یا بہت مہنگا خیال کرتی ہے۔

گذشتہ ہفتے ریاست میسا چوسٹس کے انتخاب میں حیران کن کامیابی سے ریپبلیکنز کے حوصلے بلند ہوئے ہیں اور وہ بے چینی سے اس دن کے منتظر ہیں جب نومبر کے وسط مدتی انتخاب میں وہ امریکی کانگریس میں کچھ اور نشستیں جیت لیں گے۔

صدر کو اپنی سیاست میں تبدیلی کا اشارہ دینے کا بہترین موقع بدھ کے روز ملے گا جب وہ امریکی کانگریس اور ملک میں ٹیلیویژن دیکھنے والوں کے سامنے سالانہ اسٹیٹ آف دی یونین تقریر کریں گے۔ توقع ہے کہ صدر کی توجہ اس بات پر ہو گی کہ روزمرہ کی اقتصادی کشمکش میں متوسط طبقے کے خاندانوں کی مدد کس طرح کی جائے۔ صدر کے بہت سے ڈیموکریٹک حامیوں کا کہنا ہے کہ انہیں جلد از جلد کسی قسم کا ہیلتھ کیئر پلان منظور کرنے کا کوئی طریقہ معلوم کرنا چاہیئے اور پھر اپنی تمامتر توجہ معیشت اور روزگار کے مواقع پیدا کرنے پرمرکوز کرنی چاہیئے۔ رائے عامہ کے جائزوں کے مطابق ووٹرز کو سب سے زیادہ فکر معیشت اور روزگار کی ہے۔

ریپبلیکنز کہتے ہیں کہ ریاست میساچوسٹس کے انتخاب کے نتیجے سے اس طرف بھی اشارہ ملتا ہے کہ ووٹرز چاہتے ہیں کہ صدر ہیلتھ کیئر، معیشت اور دوسرے مسائل میں حزب اختلاف کو ساتھ لے کر چلیں۔ سینیٹ میں ریپبلیکن لیڈر Mike McConnell نے حال ہی میںNBC ٹیلیویژن پر کہا کہ ’’صدر نے فیصلہ کیا کہ وہ انتہائی بائیں بازو کی راہ اختیار کریں گے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے بہت سے ارکان ان کے ساتھ نہیں ہیں۔ اگر وہ درمیانہ راستہ اختیار کریں گے تو میرے خیال میں انہیں ریپبلیکنز سے کہیں زیادہ تعاون ملے گا‘‘۔

کسی حد تک صدر کلنٹن نے 1994 کے کانگریشنل انتخاب کے بعد یہی راستہ اختیار کیا تھا۔ اس انتخاب میں ریپبلیکنز کو سینیٹ اور ایوانِ نمائندگان دونوں کا کنٹرول حاصل ہو گیا تھا۔Matt Dallek واشنگٹن میں Bipartisan Policy Center سے وابستہ ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’میرے خیال میں، جہاں تک ممکن ہو، انہیں اختلافات دور کرنے کی کوشش جاری رکھنی ہو گی، غیر جانبدار ووٹررز سے رابطہ قائم رکھنا ہوگا، ایسے مسائل تلاش کرنا ہوں گے جن میں وہ ریپبلیکنز کے ساتھ مِل کر کام کر سکتے ہوں ، خاص طور سے بجٹ میں خسارے کو کم کرنا‘‘۔

تجزیہ کاروں کا یہ خیال بھی ہے کہ ان کی موجودہ دشواریاں ایک طرح سے ان کا امتحان ہیں کہ کیا وہ ایک بار پھر وہی مقبولیت حاصل کر سکتے ہیں جو انہیں 2008ء میں صدارتی انتخاب کے وقت حاصل تھی۔

سیاسی مبصر Tom DeFrank کہتے ہیں کہ بہت سے لوگ جن میں کافی تعداد ڈیموکریٹس کی ہے، کہتے ہیں کہ صدر عام لوگوں سے الگ تھلگ ہو کر رہ گئے تھے ۔ اہم بات یہ ہے کہ لوگوں کو یہ احساس ہو کہ وہ ان کا دکھ درد سمجھتے ہیں اور جانتے ہیں کہ ان پر کیا بیت رہی ہے۔ وہ محض پروفیسر بن کر نہیں رہ سکتے۔

ماہرین کہتے ہیں کہ صدر کے لیے یہ بات اہم ہو گی کہ وہ یہ بتائیں کہ ریاست میساچوسٹس میں ریپبلیکنز کی فتح کے بعد وہ اپنے سیاسی ایجنڈے پر کس طرح عمل کریں گے۔ یہ فتح گذشتہ نومبر میں نیو جرسی اور ورجینیا میں گورنرز کے انتخاب میں ریپبلیکنز کی کامیابی کے بعد حاصل ہوئی تھی۔ ان تینوں مقابلوں سے ظاہر ہوا کہ غیر جانب دار ووٹرز میں صدر کی حمایت کم ہو رہی ہے۔

یونیورسٹی آف ورجینیا کے پروفیسر Lary Sabato کہتے ہیں کہ نومبر کے کانگریشنل انتخابات میں مسٹر اوباما اور ان کے ایجنڈے کو مرکزی حیثیت حاصل ہو گی۔ ان کے مطابق ’’وسط مدتی انتخابات تقریباً ہمیشہ بر سرِ اقتدار صدر کے بارے میں ہوتے ہیں۔ ماضی میں ان انتخابات میں مقامی امیدواروں کے درمیان اصل مقابلہ ہوا کرتا تھا۔ آخری بار ایسا 1990ء میں ہوا تھا۔ اس کے بعد پھر کبھی ایسا نہیں ہوا ہے اور میرے خیال میں2010 ء میں بھی ایسا نہیں ہوگا‘‘۔

بیشتر ماہرین نے پیشگوئی کی ہے کہ نومبر میں ایوانِ نمائندگان میں ریپبلیکنز کو20 سے 30 مزید نشستیں مِل جائیں گی لیکن اس تعداد میں اضافہ ہو سکتا ہے اور عین ممکن ہے کہ ڈیموکریٹس کو آج کل جو 40 نشستوں کی برتری حاصل ہے وہ خطرے میں پڑ جائے۔ توقع ہے کہ سینیٹ میں بھی ریپبلیکنز کو کچھ کامیابی حاصل ہو گی جہاں ریاست میساچوسٹس کے ریپبلیکن سینیٹر Scott Brown کے اپنی نشست سنبھالنے کے بعد ڈیموکریٹس کو41 کے مقابلے میں59 نشستوں کی برتری حاصل ہو گی۔

XS
SM
MD
LG