رسائی کے لنکس

ڈرون حملوں میں شہری ہلاکتیں نہیں ہونی چاہیئے تھیں: امریکی صدر


بغیر ہواز باز کا جاسوس طیارہ، ڈرون (فائل فوٹو)
بغیر ہواز باز کا جاسوس طیارہ، ڈرون (فائل فوٹو)

صدر اوباما نے کہا کہ "ماضی میں اس بات پر جائز تنقید کی جاتی رہی ہے کہ ڈرون حملوں کے استعمال کے لیے وضع کردہ قانونی حکمت عملی عین اس طرح نہیں جس طرح اسے ہونا چاہیے۔"

صدر براک اوباما نے اعتراف کیا کہ ماضی میں امریکی ڈرون حملوں میں "ایسی شہری ہلاکتیں ہوئیں جو کہ نہیں ہونی چاہیئے تھیں"، لیکن ان کے بقول ان کی انتظامیہ اب ایسی جگہوں پر جہاں خواتین اور بچے ہوں حملہ کرتے ہوئے "انتہائی احتیاط" سے کام لیتی ہے۔

جمعہ کو ایک پریس کانفرنس میں ان سے لیبیا، شام، صومالیہ اور دیگر ملکوں میں انتہا پسندوں کے خلاف ڈرون حملوں میں نشانہ بنائے جانے والوں کی تعداد میں اضافے کے بابت سوال پوچھا گیا تھا۔

صدر اوباما نے کہا کہ "ماضی میں اس بات پر جائز تنقید کی جاتی رہی ہے کہ ڈرون حملوں کے استعمال کے لیے وضع کردہ قانونی حکمت عملی عین اس طرح نہیں جس طرح اسے ہونا چاہیئے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ شہری ہلاک ہوئے جو کہ نہیں ہونے چاہیئے تھے۔"

ان کا مزید کہنا تھا کہ حالیہ چند برسوں میں ان کی انتظامیہ نے شہری ہلاکتوں سے بچنے کے لیے کام کیا ہے۔

"جنگ کی صورتحال میں، آپکو معلوم ہے، کہ ہمیں اس کی ذمہ داری لینی چاہیئے کہ ہم مناسب طریقے سے اقدام نہیں کر رہے۔"

ڈرون طیاروں سے انتہا پسندوں کے خلاف کی گئی حالیہ کارروائیوں میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد ہلاک ہوئی ہے۔

فروری میں لیبیا میں داعش کے ایک تربیتی مرکز پر ہونے والے حملے میں 40 سے زائد جب کہ گزشتہ ماہ صومالیہ میں الشباب گروپ کے خلاف حملے میں 150 افراد مارے گئے تھے۔ فروری میں ہی یمن میں ہوئے ڈرون حملے میں درجنوں افراد ہلاک ہوئے۔

صدر اوباما کا جمعہ کو کہنا تھا کہ امریکہ نے اہداف کے بارے میں انٹٰیلی جنس معلومات حاصل کرنے کے لیے طریقہ کار وضع کیا ہے اور "کارروائی سے قبل ان معلومات کی دو بار جانچ کی جاتی ہے، تین بار جانچ کی جاتی ہے۔"

ان کے بقول امریکہ ایسے کیمپوں کو نشانہ بناتا ہے جو واضح طور پر "امریکہ کے لیے نقصان دہ براہ راست منصوبہ بندی میں ملوث ہوں یا داعش اور القاعدہ کی سرگرمیوں کی حمایت کرتے ہوں۔"

XS
SM
MD
LG