رسائی کے لنکس

صدر براک اوباما کا ایشیائی ممالک کا دورہ


مسٹر اوباما تین ایسے ممالک کا دورہ کررہے ہیں جو سیاسی تبدیلیوں سے گذر ہے ہیں اور امریکہ اس خطے میں اپنے اقتصادی ، سیاسی اور سیکیورٹی مفادات از تر نو تعین پر اپنی توجہ مرکوز کیے ہوئے ہے۔

صدر براک اوباما ایشیائی ممالک کے لیے امریکی سفارت کاری پر اپنی توجہ مرکوز کرتے ہوئے ہفتے کے روز تھائی لینڈاور برما کے دورےپر روانہ ہورہے ہیں جس کے بعد وہ مشرقی ایشیائی ممالک کی سربراہ کانفرنس میں شرکت کے لیے کمبوڈیا جائیں گے۔

مسٹر اوباما تین ایسے ممالک کا دورہ کررہے ہیں جو سیاسی تبدیلیوں کے مرحلے سے گذر ہے ہیں اور امریکہ اس خطے میں اپنے اقتصادی ، سیاسی اور سیکیورٹی مفادات کو متوازن بنانے پر اپنی توجہ مرکوز کیے ہوئے ہے۔

بنکاک میں مسٹر اوباما اس ملک کے ساتھ امریکہ کے تاریخی تعلقات اور عشروں پر محیط مضبوط فوجی تعاون کی اہمیت اجاگر کرنے کے لیےوہاں کے وزیر ا عظم ین گلوک شناواترا سے ملاقات کریں گے ۔

پیر کے روز وہ برما کے دورہ کرنے والے پہلے امریکی صدر بن جائیں گے، جہاں ایک کمزور جمہوریت اصلاحات کے عمل سے گذر رہی ہےاور جہاں ابھی تک فوج ایک بڑی قوت کے طور پر اقتدار میں موجود ہے۔

مسٹر اوباما کمبوڈیا کا بھی دورہ کریں گے جہاں وزیر اعظم ہن سین کو انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیوں اور آمرانہ طرز عمل پر نکتہ چینی کا سامنا ہے۔

مسٹر اوباما کی صدارتی انتخابات میں دوسری مدت کے لیے کامیابی نے ان کے سیاسی مقام و مرتبے کوبڑھاوا دیا ہے۔ اور سینٹر فار سٹرٹیجک اینڈ انٹرنیشنل اسٹڈیز کے اسکالر مائیکل گرین نے اس دورے کو ایشیا کی جانب امریکی توجہ کی منتقلی کی وضاحت کے ایک موقع سے تعبیر کیا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ تھائی لینڈ میں جمہوریت مشکلات کا شکار ہے۔ کمبوڈیا میں آمرانہ نظام کی سختیاں بڑھ رہی ہیں اور برما اصلاحات لانے کی کوششیں کررہاہے لیکن وہاں بڑے پیمانے پر نقائص موجود ہیں۔ چنانچہ میرے خیال میں امریکی صدراس دورے میں کیا مدنظر رکھتے ہیں ، اس کا مرکز ی نقطہ یہ ہے کہ ہم انہیں اپنے قریب لا کر یا کچھ اور کرکے اس سفید و سیاہ کو کس طرح رنگین بناسکتے ہیں۔

برما میں مسٹر اوباما جمہوریت کی علامت ا ور رکن پارلیمنٹ آنگ ساں سوچی سے ملاقات کریں گے۔ اس سے پہلے ستمبر میں وہ دونوں وہائٹ ہاؤس میں مل چکے ہیں، جب سوچی امریکہ کے دورے پر آئیں تھیں۔

امریکہ نے برما پر اپنی اقتصادی پابندیاں نرم کردی ہیں اور امریکی کمپنیاں وہاں سرمایہ کاری کے مختلف پہلوؤں پر غوروفکر کررہی ہیں۔

لیکن واشنگٹن ان چیلنجز کے متعلق حقیقت پسندانہ سوچ رکھتا ہے۔ انسانی حقوق پر صدر اوباما کے ایک اہم مشیر سیمنتھا پاور کا کہنا ہے کہ یہ دورہ اس طرح ترتیت دیا گیا ہے کہ جس سے یہ پیغام جائے کہ امریکہ مزید اصلاحات کی حمایت کرے گا۔

ان کا کہناہے کہ اس دورے کی وسعت کے پیش نظر ہمیں یہ موقع مل رہاہے کہ ہم انہیں یہ دوٹوک پیغامات دے سکیں کہ اصلاحاتی عمل کے نتیجے میں کھلنے والی نئی راہوں اور مواقعوں سے فائدہ اٹھانے کے سلسلے میں ہم ان سے مستقبل میں کن اقدامات کی توقع رکھتے ہیں۔

انسانی حقوق کی تنظیمیں یہ چاہتی ہیں کہ مسٹر اوباما مزید سیاسی قیدیوں کی رہائی اور نسلی اقلیتوں کے ساتھ برتاؤ کے متعلق برما کی حکومت سے ٹھوس بات کریں ۔

واشنگٹن میں ایمنسٹی انٹرنیشنل آفس کے سربراہ سیمنتھا پاور کا کہنا ہے کہ بنیادی بات یہ ہے کہ میانمر کی جانب سے اس سلسلے میں کیے گئے تمام اقدامات کمزور اور قابل واپسی ہیں اور صدر اوباما اور ان کی انتظامیہ کو سمت کا تعین کرنا ہوگا اور اس کے بغیر وہ یہ نہیں کہہ سکتے کہ میانمر کا مشن مکمل ہوگیا ہے۔


اس دورے کے آخر میں مسٹر اوباما کمبوڈیا جارہے ہیں جہاں ایشیائی ممالک کی سربراہ کانفرنس میں جنوبی بحیرہ چین کا تنازع ایک اہم موضوع ہوگا۔

سی آئی اے کے چین سے متعلق ایک سابق تجزیہ کارکرس جانسن کہتے ہیں کہ اس سال کے شروع میں کمبوڈیا اور آسیان پر چین کی جانب سے آنے والا دباؤ واضح ہورہاہے۔

وہ کہتے ہیں کہ چین اپنے اقتصادی اور سیاسی مفادات کے لیے کمبوڈیا پر اپنے تمام حربے آزما رہاہے اور اس سلسلے میں ابتدائی طورپر جو مجھے دکھائی دے رہاہے وہ یہ ہے کہ چین ان منفی پہلوؤں کا ادارک نہیں کر پارہا جو اس کے اقدامات سے یقینی طور پر آسیان ممالک کے اندر محسوس کیے جارہے ہیں۔

وہائٹ ہاؤس کے عہدے داروں کا کہناہے کہ مسٹر اوباما چین کے وزیر اعظم وین جیا باؤ اور جاپان کے وزیر اعظم یوشی ہی کو نودا سے بھی ملاقات کریں گے۔

علاقائی راہنما نہ صرف امریکہ مالیاتی مسئلے پر متفکر ہیں بلکہ ان کے سامنے یہ پہلو بھی ہے کہ صدر اوباما وزیر خارجہ ہلری کلنٹن کا جانشین کسے مقرر کرتے ہیں جنہوں نے مسٹر اوباما کی پہلی صدارتی مدت میں امریکہ کی ایشیا پالیسی میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
XS
SM
MD
LG