رسائی کے لنکس

قاہرہ میں صدر اوباماکے خطاب کا ایک سال اور مسلمانوں کا ردعمل


ایک سال قبل صدر اوباما نے قاہرہ میں ایک تقریر کی تھی جس کا مقصد دنیا کے مسلمانوں کے ساتھ امریکہ کے تعلقات میں بہتری لانا تھا۔ انھوں نے اسلام کے لیے امریکہ کے احترام کی بات کی اور صدر بُش کی پالیسیوں کے خاتمے کا اشارہ دیا جن کے دور میں عراق اور افغانستان کی جنگوں کی وجہ سے دونوں طرف شکوک و شبہات میں اضافہ ہو گیاتھا۔ ایک سال بعد، وائس آف امریکہ کے نمائندوں نے عرب ملکوں، اور جنوبی ایشیا اور انڈونیشیا کے بعض مسلمانوں سے دریافت کیا کہ کیا ان کے خیال میں صدر اوباما نے اپنے وعدے پورے کیے ہیں۔

مسٹر اوباما کی تقریر سے یہ امید پیدا ہوئی تھی کہ مسلمانوں اور امریکیوں کے درمیان مذہبی ، سماجی، سرکاری اور اقتصادی ، غرض بہت سے شعبوں میں اختلافات ختم ہو جائیں گے۔ انھوں نے کہا تھا’’جب تک ہمارے تعلقات کو ہمارے درمیان اختلافات سے پہچانا جاتا رہے گا، اس وقت تک ہم ان لوگوں کے ہاتھ مضبوط کرتے رہیں گے جو امن کے بجائے نفرت کے بیج بوتے ہیں اور جو تنازعات کو فروغ دیتے ہیں نہ کہ تعاون کو، جس سے ہمارے لوگ انصاف اور خوشحالی حاصل کر سکتے ہیں۔‘‘

کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ ان کی تقریر کی بنیادی خامی یہ تھی کہ اس میں بلا تخصیص سب کے لیے ترقی کی نوید موجود تھی۔ ہالا مصطفی، ایک مصری رسالے، ڈیموکریسی کی ایڈیٹر ہیں۔ وہ گذشتہ جون کی تقریر سننے والوں میں موجود تھیں۔ وہ کہتی ہیں’’میں سمجھتی ہوں کہ وہاں جتنے لوگ موجود تھے ان میں سے ہر ایک نے اپنی مرضی کی بات سنی۔اگر آپ جمہوریت کا فروغ چاہتے ہیں، تو آپ مطمئن ہو گئے۔ اگر آپ کی دلچسپی حکومت میں ہے، تو آپ نے وہی سنا جو آپ چاہتے تھے۔ امن کے عمل کے سلسلے میں، فلسطینیوں اور اسرائیلیوں نے اپنی اپنی دلچسپی کی بات سنی۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ایک سال کے بعد حاصل کچھ بھی نہیں ہوا ہے ۔‘‘

قاہرہ میں امریکن یونیورسٹی کے پروفیسر سعید صادق اس خیال سے متفق ہیں۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ مسئلہ لوگوں کی توقعات کا بھی ہے۔ ’’کیوں کہ ہمارے علاقے میں آمریت اور بہت سے سنگین مسائل کی تاریخ بہت پرانی ہے اس لیے ہمیشہ لوگ کسی ہیرو کی آرزو کرتے رہتے ہیں جو آئے گا اور ان کے مسائل حل کردے گا ۔ جب صدر اوباما یہاں آئے اور انھوں نے قاہرہ یونیورسٹی میں تقریر کی تو لوگوں نے نعرے لگائے، اوباما ہم تم سے محبت کرتےہیں۔ لیکن آج ہر طرف مایوسی پھیلی ہوئی ہے ۔‘‘

مسلمان اکثریت والے علاقوں کی سڑکوں پر، ہر کوئی مایوس نہیں ہے۔ جکارتا میں سُندا کلاپا مسجد کے باہر نووائی آندریانی نے وائس آف امریکہ کے نمائندے سے کہا کہ میرے خیال میں امریکہ اتنی جلدی سب کچھ تبدیل نہیں کر سکتا۔ میرا خیال ہے کہ آہستہ آہستہ تبدیلی آئے گی لیکن فوری طور پر کوئی بڑی تبدیلی نہیں آ سکتی۔

قاہرہ میں اس یونیورسٹی کے باہر جہاں مسٹر اوباما کا زبردست تالیوں سے استقبال کیا گیا تھا، طالب علم احمد جمال خطار نے کہا کہ صدر نے جن چیزوں کا وعدہ کیا تھا اس میں سے کچھ کی گئی ہیں اور کچھ نہیں۔ انھوں نے عراق سے فوجیں نکالنے اور اسے آزاد کرنے کا وعدہ کیاتھا، لیکن اب تک یہ ہوا نہیں ہے ۔ انھوں نے کہا تھا کہ افغانستان میں حالات بہتر ہوں گے، لیکن وہ اور زیادہ خراب ہو گئے ہیں۔

قاہرہ میں امریکن یونیورسٹی کے پروفیسر صادق کہتے ہیں کہ لوگوں کو جو مایوسی ہوئی ہے اس کی ایک وجہ مسٹر اوباما کا زورِ خطابت ہے ۔ وہ ایک بات کہتے ہیں اور پھر اس کے ساتھ اپنا مشہور لفظ لیکن لگاتے ہیں۔مثلاً وہ عراق سے نکلنا چاہتے ہیں لیکن انہیں اپنی فوجی موجودگی بھی قائم رکھنی ہے۔ وہ اس خطے میں جمہوریت چاہتے ہیں لیکن اس کے ساتھ ہی وائٹ ہاؤس کو عرب ڈکٹیٹروں کے ساتھ دیرینہ تعلقات بھی برقرار رکھنے ہیں۔ وہ فلسطینیوں کی الگ ریاست چاہتے ہیں لیکن اسرائیل کے مفادات کو اولیت حاصل ہے۔

امریکہ اور مسلمانوں کے تعلقات میں اسرائیل بہت اہم ہے۔ قاہرہ میں مسٹر اوباما نے فلسطینی زمینوں پر اسرائیلی بستیوں کی تعمیر کی مخالفت کرنے کا عہد کیا۔ لیکن تعمیر جاری رہی۔ لیکن انڈونیشیا میں کچھ لوگوں کے خیال میں کچھ بہتری آئی ہے۔ جکارتا کے شہری رُوری کا خیال ہے کہ غزہ کی پٹی کو جو مدد دی گئی ہے اور پی ایل او اور اسرائیل کے درمیان مذاکرات دوبارہ شروع ہوئے ہیں اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ قاہرہ کی تقریر کا کچھ اثر ہوا ہے۔

لیکن بہت سے پرانے شکوک و شبہات اور تعصبات بڑی آسانی سے سامنے آ جاتے ہیں۔ ویب سائٹ فیس بُک پر اسلام کی مبینہ توہین کے بارے میں اسلام آباد میں یونیورسٹی کے ایک طالب علم نے اس طرح اظہارِ خیال کیا’’ایک طرف تو اوباما کہتے ہیں کہ ہم مسلمان دنیا کے ساتھ اچھے تعلقات چاہتے ہیں اور دوسری طرف، دوسرے لوگ، جیسی یہودی اس قسم کے مسائل پیدا کرتے ہیں جو آپ نے فیس بُک پر دیکھے ہیں۔ ان چیزوں کو منظرِ عام پر لانا چاہیئے ۔‘‘

اسلام آباد میں یونیورسٹی کے ایک اور طالب علم کا خیال ہے کہ صدر اوباما نے دہشت گردی کے حوالے سے بُش کی پالیسی جاری رکھی ہے۔ ان کا مقصد مسلمانوں کو ہلاک کرنا ہے۔ مسلمانوں کے سوا دنیا میں تمام لوگوں کے ساتھ امریکہ کے تعلقات اچھے ہیں۔

انڈونیشیا میں جہاں مسٹر اوباما نے اپنے بچپن کے چند سال گذارے ہیں، بعض لوگوں کا خیال ہے کہ مسلمان دنیا سے تعلقات بہتر نہ ہونے میں مسٹر اوباما کا کوئی قصور نہیں۔ حاجی جونی سبحان نے وائس آف امریکہ کے نمائندے سے کہا کہ اوباما تو مسلمان دنیا کے ساتھ انتہا پسندی کی پالیسی اختیار کرنا نہیں چاہتے، لیکن ان کے ساتھ جو دوسری طاقتیں ہیں وہ تبدیلی نہیں چاہتیں۔

ایک سال پہلے قاہرہ میں مسٹر اوباما نے اپنی تقریر میں کہا تھا’’ایسا نہیں ہے کہ امریکہ اور اسلام میں کوئی چیز مشترک نہیں اور نہ ہی ان کے درمیان مقابلہ ضروری ہے۔ بلکہ ان کے اصول جیسے ، انصاف اور ترقی، اور تمام انسانوں کے لیے رواداری اور انسانی وقار ، مشترک ہیں۔ میں یہ بات جانتا ہوں کہ تبدیلی راتوں رات نہیں آ سکتی۔ میں جانتا ہوں کہ اس تقریر کی بہت پبلسٹی ہوئی ہے لیکن کسی ایک تقریر سے برسوں کی بدگمانیاں دور نہیں ہو سکتیں۔‘‘

صدر کو احساس تھا کہ ان کے ناقدین کیا کہیں گے۔ اسی لیے انھوں نے صبر کی تلقین کی۔

XS
SM
MD
LG