رسائی کے لنکس

امریکہ اور پاکستان کا افغان مصالحتی عمل کی حمایت کا اعادہ


مشترکہ اعلامیے میں پاک امریکہ دفاعی تعاون پر ’اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے‘، دونوں ملکوں نے پُر امن افغان سرحد پر دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے علاقائی امن و استحکام کا اعادہ کیا۔۔۔ باہمی شراکت داری علاقائی امن کے لیے ضروری قرار

پاک امریکہ دفاعی تعاون پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے، دونوں ملکوں نے پُر امن افغان سرحد اور دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے علاقائی امن و استحکام کو برقرار رکھنے پر زور دیا ہے۔

دونوں ملکوں نے اس بات کا اعادہ کیا ہے کہ داعش کو پاکستان میں قدم نہیں جمانے دیے جائیں گے۔ ساتھ ہی، کہا گیا ہے کہ داعش کے بڑھتے ہوئے اثرات سے نمٹنے کے لیے دونوں ملک مل کر کام کریں گے۔

یہ بات امریکی صدر براک اوباما اور وزیر اعظم نواز شریف کی وائٹ ہاؤس کے اوول آفس میں دو گھنٹے تک جاری رہنے والی ملاقات کے بعد جاری ہونے والے ایک مشترکہ اعلامیہ میں کہی گئی ہے۔

دونوں ملکوں نے حکومت افغانستان اور افغان طالبان کے مابین افغان قیادت والے مفاہمتی عمل کی حمایت کا اعادہ کیا، اور طالبان لیڈروں پر زور دیا کہ وہ افغانستان کے ساتھ براہ راست مذاکرات کے عمل میں شامل ہوں، اور ایک قابل عمل اور دیرپہ تصفیے کی سعی کریں۔

اس سلسلے میٕں، صدر اوباما نے جولائی 2015ء میں افغان حکومت اور طالبان کے مابین پہلے عام مذاکراتی دور کے انعقاد کی میزبانی پر پاکستان کی تعریف کی۔ وزیر اعظم نواز شریف نے یقین دہانی کرائی کہ کسی شدت پسند دھڑے یا فریق کو تشدد کی کارروئی کے لیے پاکستانی علاقہ استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

اعلامیے میں پاک افغان سرحد پر حملوں کو روکنے پر زور دیا گیا ہے۔ اس ضمن میں، دونوں رہنماؤں نے سرحد کو ’مربوط منیجمنٹ‘ کے ذریعے مضبوط کرنے کی بات کی۔

اس میں اس بات کا اعادہ کیا گیا ہے کہ خطے میں امن و استحکام کے لیے پاک امریکہ سکیورٹی تعاون آئندہ بھی جاری رکھا جائے گا۔

دونوں رہنماؤں نے وسیع جہتی پاک امریکہ تعلقات کا جائزہ لیا۔ صدر اوباما نے نیوکلیئر سکیورٹی پر بات کی اور پاکستان کی جانب سے اٹھائے گئے اقدام کو سراہا۔

اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ دونوں رہنماؤں نے لائن آف کنٹرول پر کشیدگی پر تشویش کا اظہار کیا۔ خطے مین پائیدار امن اور خوش حالی کے لیے اعتماد سازی کے اقدامات کی حمایت کی گئی ہے۔

وزیر اعظم نواز شریف نے پختہ عزم کا اظہار کیا کہ پاکستانی سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونے دی جائے گی۔

صدر اوباما نے آپریشن ضرب عضب میں دہشت گردی اور شدت پسندی کے خلاف حاصل کردہ پیش رفت کو سراہا، اور پاک فوج کی قربانیوں کو خراج تحسین پیش کیا۔

وزیر اعظم نواز شریف نے 20 اکتوبر سے 23 اکتوبر، 2015ء کے دوران امریکہ کا سہ روزہ سرکاری دورہ کیا۔ جمعرات کو جاری ہونے والے ایک تفصیلی مشترکہ اعلامیہ میں دورے کے دوران سرکاری سطح پر بات چیت اور دونوں ملکوں کےتعلقات میں حاصل کردہ پیش رفت، مستقبل کے اہداف اور توقعات کی تفصیل درج ہے۔

اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ وائٹ ہاؤس میں صدر اوباما اور وزیر اعظم نواز شریف کی ملاقات کے دوران ’وسیع تر امور پر گفتگو ہوئی‘۔

اس میں بتایا گیا ہے کہ ’دونوں رہنماؤں نے خوش حال پاکستان اور مزید مستحکم خطے کے حصول کے لیے، دیرپہ امریکہ پاکستان پارٹنرشپ کے عزم کا اعادہ کیا‘۔

دونوں سربراہان نے اس عزم کا اظہار کیا کہ امریکہ پاکستان ساجھے داری علاقائی اور عالمی امن اور سلامتی کے لیے اہمیت کی حامل ہے؛ اور اُنھوں نے ’جنوبی ایشیا میں منڈلاتے ہوئے خطرات سے نمٹنے کے عزم کا اظہار کیا‘۔

صدر اوباما اور وزیر اعظم نواز شریف نے کہا کہ جمہوریت امریکہ پاکستان پارٹنرشپ کا ’ایک کلیدی ستون ہے‘۔ پاکستانی جمہوری اداروں کو ’تقویت دینے اور مضبوط کرنے پر‘ صدر اوباما نے وزیر اعظم نواز شریف کو سراہا۔

دونوں رہنماؤں نے روایتی سلامتی کے شعبے میں تعاون کے علاوہ تجارت اور سرمایہ کاری، تعلیم، سائنس اور ٹیکنالوجی، شفاف، تسلی بخش اور قابل دسترس توانائی کا حصول؛ موسمیاتی تبدیلی، معاشی افزائش، علاقائی یکجہتی، قانون کی حکمرانی، عوامی سطح کے ثقافتی مراسم کا فروغ، اور جمہوری اقدار کی حمایت کے شعبوں تک بڑھانے پر زور دیا۔

صدر اوباما نے ’اسلامی ملکوں کی ایک سب سے بڑی جمہوریت کے طور پر، پاکستان کے کردار کی اہمیت کی نشاندہی کی؛ اور کہا کہ دنیا کے امن، سلامتی، ترقی اور انسانی حقوق کے حوالے سے پاکستان کو اپنا اثر و رسوخ استعمال کرنا چاہیئے‘۔

دونوں سربراہان نے امریکہ پاکستان اسٹریٹجک ڈائیلاگ کو فروغ دینے کے عزم کا اظہار کیا، تاکہ اِن شعبوں اور دیگر امور میں پیش رفت حاصل کی جائے۔

معاشی ترقی کی جانب توجہ دلاتے ہوئے، صدر اور وزیر اعظم نے کہا کہ پاکستان میں معاشی افزائش کا فروغ، پاکستانی عوام کی خوش حالی اور خطے کی سلامتی کی ضمانت ہے۔

تعلیم کے فروغ اور متمدن معاشرے کی بہتری کے ضمن میں، صدر اوباما اور وزیر اعظم نواز شریف نے بنیادی اور اعلیٰ تعلیم کے میدان میں مزید سرمایہ کاری کی ضرورت پر زور دیا۔

صدر اوباما نےامریکہ کی جانب سےموسمیاتی تبدیلی اور توانائی کے میدان میں پاکستان کو ٹھوس تعاون کا یقین دلایا۔ اس سلسلے میں، دونوں ملکوں نے امریکہ پاکستان شفاف توانائی پارٹنرشپ تشکیل دینے کا اعلان کیا۔

پاکستان کی توانائی اور پانی کی ضروریات پوری کرنے کے حوالے سے، امریکہ نے دیامیر بھاشا ڈیم اور داسو ڈیم کے لیے رقوم کے حصول میں پاکستان کی مدد کرنے کا اعلان کیا۔

صحت کے شعبے میں دونوں فریق نے باہمی تعاون بڑھانے پر زور دیا، تاکہ وبائی امراض کے تدارک، بروقت تشخیص اور علاج معالجےکے لیے اقدام کیا جاسکے۔

اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ صدر اوباما نے دسمبر 2014ء میں تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی جانب سے کیے گئے حملے میں 140 بچوں کی ہلاکت کے واقعے کی مذمت کی۔

سائبر سکیورٹی کے شعبے میں تعاون کا بھی اعادہ کیا گیا۔

دہشت گرد اور پُرتشدد انتہاپسند گروہوں کے خلاف کارروائی کے حوالے سے تعاون جاری رکھنے کی اہمیت کو اجاگر کیا گیا۔ اِس ضمن میں، صدر اوباما نے پاکستان کے اہم کردار کی تعریف کی؛ اور خصوصی طور پر، آپریشن ’ضرب عضب‘ کا تفصیلی ذکر کیا گیا۔

وزیر اعظم نے ’نیشنل ایکشن پلان‘ کا حوالہ دیا اور کہا کہ پاکستان ’حقانی نیٹ ورک‘ سمیت طالبان کے خلاف کارروائی کر رہا ہے۔

صدر اوباما اور وزیر اعظم نواز شریف نے پاک بھارت باہمی تعلقات میں بہتری کی ضرورت پر زور دیا، جس کے نتیجے میں خطے میں دیرپہ امن، استحکام، اور خوش حالی آئے گی۔

اس سے قبل، امریکی صدر براک اوباما نے کہا ہے کہ وزیر اعظم نواز شریف سے ’نہ صرف سلامتی سے متعلق امور، بلکہ معاشی، سائنسی اور تعلیمی امور اور مل کر کام کرنے اور تعاون کے وسیع جہتی معاملات پر‘ بات چیت متوقع ہے۔

وائٹ ہاؤس کے اوول آفس میں ملاقات کے آغاز سے قبل، صحافیوں سے مختصر کلمات میں، صدر اوباما نے کہا کہ ’دونوں ممالک کے درمیان طویل مدتی تعلقات ہیں‘۔

امریکی صدر نے امریکہ میں پاکستانی کمیونٹی کے کام کی تعریف کی اور کہا کہ وہ امریکہ کی تعمیر کے حوالے سے ’کارگر کام انجام دے رہی ہے‘۔

اُُنھوں نے کہا کہ باہمی تعلقات کی خصوصیت یہ ہے کہ ’یہ عوامی سطح پر‘ قائم ہیں۔

صدر اوباما نے اس توقع کا اظہار کیا کہ آج کی ملاقات باہمی تعلقات کو ’مزید مضبوط کرنے کا ایک موقع فراہم کرے گی‘۔

نواز شریف نے اپنے کلمات میں کہا کہ پاکستان امریکہ تعلقات 70 برس پرانے۔

اُنھوں نے اس اعتماد کا اظہار کیا کہ وقت کے ساتھ ساتھ یہ سودمند تعلقات مزید مضبوط ہوں گے۔

گذشتہ ہفتے، صدر اوباما نے اعلان کیا کہ 2016ء کے بعد بھی 5500 امریکی فوجیں افغانستان میں تعینات رہیں گی۔

اُن کی انتظامیہ نے حقانی نیٹ ورک جیسے سخت گیر دیگر اسلامی گروہوں کے خلاف کارروائی کرنے پر پاکستان پر دباؤ جاری رکھا ہے، جو پاکستان میں قائم ہیں۔

اس سے قبل، سنہ 2013 میں، دونوں رہنماؤں نے اوول آفس میں ملاقات کی تھی۔

پروگرام کے موجب، وزیر اعظم جمعے کی صبح، ’یونائٹڈ اسٹیٹس انسٹی ٹیوٹ آف پیس‘ سے خطاب کریں گے، جس کے بعد وہ وطن واپس روانہ ہوں گے۔

XS
SM
MD
LG