رسائی کے لنکس

صدر اوباما کی حزب اختلاف سے روابط بڑھانے کی کوششیں


صدر اوباما کی حزب اختلاف سے روابط بڑھانے کی کوششیں
صدر اوباما کی حزب اختلاف سے روابط بڑھانے کی کوششیں

اس حقیقت کے باوجود کہ 2010 امریکہ میں کانگریس کے انتخاب کا سال ہے، صدر باراک اوباما نے اپنی صدارت کے دوسرے سال میں ، حزبِ اختلاف کے ریپبلیکن ارکان کے ساتھ رابطے بڑھا نے کی کوششیں تیز کر دی ہیں۔

2008 میں اپنے انتخاب کے بعد مسٹر اوباما نے وعدہ کیا تھا کہ وہ واشنگٹن میں پارٹی بندی کی فضا کو تبدیل کرنے کی کوشش کریں گے۔ ایک سال گزرنے کے بعد جس کے دوران دونوں پارٹیوں کے درمیان اختلافات کی خلیج اور وسیع ہوگئی، صدر نے اپنے حالیہ اسٹیٹ آف دی یونین خطاب میں دونوں بڑی سیاسی پارٹیوں کو، خاص طور سے ریپبلیکنز کو چیلنج کیا کہ وہ مِل جُل کر کام کریں۔ انھوں نے کہا’’ہو سکتا ہے کہ ہر بات پر نا کہنے سے وقتی طور پر کچھ سیاسی فائدہ حاصل ہو جائے، لیکن اسے قیادت نہیں کہہ سکتے۔ ہمیں یہاں شہریوں کی خدمت کے لیے بھیجا گیا ہے، اپنی ذاتی عزائم کی تکمیل کے لیے نہیں۔‘‘
اسٹیٹ آف دی یونین خطاب کے چند روز بعد مسٹر اوباما نے ایک غیر معمولی قدم اٹھایا۔ انھوں نے ایوان ِ نمائندگان کے ریپبلیکن ارکان کے سوالات کے جواب دیے جنہیں شکایت تھی کہ ڈیموکریٹک کانگریشنل لیڈر ان کے خیالات اور تجاویز کو بلا سوچے سمجھے مسترد کر دیتے ہیں۔ صدر نے کہا کہ وہ کانگریس میں دونوں پارٹیوں کے درمیان تعاون کو بہتر بنانے کے لیے ہر ممکن کوشش کریں گے۔ان کا کہنا تھا’’ہمیں اپنے لب و لہجے پر غور کرنا چاہئیے ۔ مجھے پتہ ہے کہ یہ مسئلہ صرف آپ لوگوں کے ساتھ نہیں ہے۔ یہ ہماری پارٹی میں بھی موجود ہے ۔ یہ نتیجہ ہے اس بات کا کہ ہم سیاست میں دوسرے فریق کو اتنا برا بھلا کہہ ڈالتے ہیں کہ جب واقعی کام کرنے کا وقت آتا ہے تو کچھ کرنا بہت مشکل ہو جاتا ہے ۔‘‘
ایوان ِ نمائندگان کے ریپبلیکن لیڈر کانگریس مین John Boehnerنے NBC ٹیلیویژن کے میٹ دی پریس پروگرام میں کہا’’ریپبلیکنز کا فرض ہے کہ وہ اپنے اصولوں پر قائم رہیں اور ان تجاویز کی مخالفت کریں لیکن اس کے ساتھ ساتھ انہیں بہتر حل بھی پیش کرنے چاہئیں۔‘‘
امریکی سیاست میں عناد و دشمنی کی فضا کئی عشروں سے بتدریج پروان چڑھتی رہی ہے لیکن 1990 کے عشرے میں صدر بِل کلنٹن کی صدارت کے دوسرے سال میں جب کانگریس کا کنٹرول ریپبلیکنز کے ہاتھوں میں آیا یہ عروج کو پہنچ گئی ۔آثار ایسے ہیں کہ نومبر کے وسط مدتی انتخابات میں ریپبلیکنز ، کانگریس میں کچھ نشستیں حاصل کر لیں گے۔ تاریخ داں Allan Lichtman کہتے ہیں کہ ان حالات میں اس بات کا امکان بہت کم ہے کہ ریپبلیکنز اوباما وائٹ ہاؤس کے ساتھ تعاون کرنے کے موڈ میں ہوں۔ انھوں نے کہا’’ریپبلیکنز آج کل بالکل اسی حکمت عملی پر چل رہے ہیں۔ وہ سوچتے ہیں کہ ہم صدرِ امریکہ کو جتنی زیادہ بار شکست دیں گے اتنے ہی ہمارے اقتدار میں واپس آنے کے امکانات روشن ہوں گے۔ ریاست Massachusetts جیسی ریاست میں لبرل سینیٹر Ted Kennedy کی نشست پر ریپبلیکنز کی جیت سے انہیں یقین ہو گیا ہے کہ اوباما کی مسلسل مخالفت کرنے کی حکمت عملی کامیاب ہو رہی ہے۔‘‘
صدر نے حزبِ اختلاف کی جانب دوستی کا ہاتھ بڑھایا ہے ، لیکن انہیں یہ بھی احساس ہے کہ ان کے اپنے لبرل ڈیموکریٹک حلقے کو بھی کچھ دلاسہ دینا ضروری ہے۔ واشنگٹن کی امریکن یونیورسٹی میں سیاسیات کی پروفیسر Elizabeth Sherman کہتی ہیں کہ اوباما اپنے لبرل ساتھیوں سے بنیادی طور پر یہ کہہ رہے ہیں کہ ہم اپنی جدو جہد ترک نہیں کریں گے۔ آئیے ہم ایک دوسرے کا بازو تھام لیں اور آگے بڑھیں۔
حقیقت یہ ہے کہ بہت سے لبرلز کا خیال ہے کہ صدر پہلے ہی بڑی آسانی سے قدامت پسند ڈیموکریٹس اور اعتدال پسند ریپبلیکنز کی بات ماننے کا عندیہ دے چکے ہیں۔
تاریخ داں Allan Lichtman کہتے ہیں کہ جیسے جیسے نومبر کے کانگریشنل انتخابات قریب آئیں گے، دونوں پارٹیوں کے درمیان تعاون کی باتیں کم ہوتی جائیں گی۔ ان کا کہنا ہے’’ریپبلکنز کے پا س دو راستے ہیں۔ وہ یا تو اوباما کے ساتھ مِل کر کام کر سکتے ہیں یا وہ ہر چیز میں نا کہہ سکتے ہیں۔ اگر وہ برابر نا کہنا جاری رکھتے ہیں تو پھر آپ دیکھیں گے کہ صدارتی مہم جب انتخاب کے نزدیک پہنچے گی تو صدر ریپبلیکنز کو چیلنج کریں گے اور کہیں گے کہ ان کی پارٹی کا کام محض تاخیر کرنا اور رکاوٹیں کھڑی کرنا ہے ۔‘‘
آنے والے انتخابات کے امکانات پر غور کیا جائے تو اس وقت ریپبلیکنز جوش و جذبے سے بھر پور ہیں۔ صدر کے علاج معالجے کے نظام کی مخالفت اور حکومت کے اخراجات اور خسارے پر عام لوگوں کی ناراضگی سے انہیں تحریک ملی ہے۔ 2008 اور 2006 کے پچھلے دو انتخابات میں انہیں نشستوں کا نقصان اٹھانا پڑا تھا۔
XS
SM
MD
LG