رسائی کے لنکس

سٹیٹ آف دی یونین ایڈریس سے اوباما سیاسی فائدہ اُٹھانا چاہتے ہیں


سیاسی اعتبار سے صدر اوباما کا پہلا سال مشکل رہا۔ نظامِ صحت میں اصلاحات کے منصوبے اور معیشت کو سہارا دینے کے حکومتی پیکیج پر داخلی سیاسی بحث کی شکل میں انھیں بھاری قیمت ادا کرنی پڑی ہے۔

رائے عامہ کے جائزوں سے پتا چلتا ہے کہ صحت کی اصلاحات کے منصوبے اور حکومتی اخراجات، جِن کے باعث وفاقی بجٹ خسارے میں اضافہ ہوا اور لوگوں کی برہمی بڑھی ہے۔

میساچیوسٹس سے سنیٹ کی خصوصی نشست پر ری پبلکن پارٹی کے امیدوار سکوٹ براؤن کی حالیہ کامیابی نے صدر اوباما اور اُن کے کانگریس میں ڈیموکریٹ پارٹی کے حامیوں کو مجبور کر دیا ہے کہ عارضی طور پر نظامِ صحت کی اصلاحات کے منصوبے کو ایک طرف رکھ دیں، جس دوران کانگریس سے منظوری حاصل کرنے کی نئی حکمتِ عملی وضع کرنے پر غور کیا جائے گا۔


سٹیٹ آف دی یونین خطاب میں صدر نے تسلیم کیا کہ منصبِ صدارت کے پہلے سال اُنھیں کچھ سیاسی مشکلات کا سامنا رہا۔

اُن کے بقول انتخابی مہم کے دوران میں نے تبدیلی کا وعدہ کیا تھا، ایسی تبدیلی جس کا ہم اقرار کریں، یہی ہمارا نعرہ تھا۔ اور اِس وقت مجھے پتا ہے کہ متعدد امریکی ایسے ہیں جنھیں یہ یقین نہیں ہے کہ ہم ابھی تک اِس نعرے پر قائم ہیں کہ ہم تبدیلی لائیں گے، یا یہ کہ میں یہ وعدہ پورا کر پاؤں گا۔لیکن یہ بات یاد رکھیں، میں نے کبھی یہ نہیں کہا کہ تبدیلی لانا آسان کام ہے یا یہ کہ میں اپنے طور پر ہی ایسا کر پاؤں گا۔’

صدر اوباما نے تقریر کے کچھ حصے میں حزب اختلاف ری پبلکن پارٹی کے ارکان کو دعوت دی کہ جہاں تک ممکن ہو وہ ڈیموکریٹ ارکان کے ساتھ مل کر کام کریں۔ تاہم فوری طور پر دستیاب ری پبلکن پارٹی ارکان کا ردِ عمل کچھ زیادہ خوش کن نہیں، جِن میں ایوانِ نمائندگان میں ری پبلکن پارٹی کے سربراہ، جان بوہنر شامل ہیں، جِن کا تعلق ریاست اوہائیو سے ہے۔

بوہنر کے الفاظ میں: ’میرے خیال میں صدر امریکی لوگوں پر یہ ثابت کرنا چاہتے تھے کہ وہ سُن رہے ہیں۔ بدقسمتی سے ایسا نہیں لگتا کہ جو کچھ میساچیوسٹس کے لوگوں نے کہا وہ صدر نے سنا، یا جو گذشتہ سال کے انتخابات میں نیو جرسی اور ورجینیا میں لوگوں نے کہا صدر نے ان کی باتیں سنی ہیں۔‘

اپنی سٹیٹ آف دی یونین تقریر میں صدر اوباما نے کوشش کی کہ مایوس ہونے والے ڈیموکریٹس کی ہمت افزائی کریں۔ لیکن کئی لبرل رہنما اِس بات پر نالاں ہیں کہ کچھ معاملات پر صدر نے ری پبلکن پارٹی کے لوگوں کے ساتھ مفاہمت کی خواہش کا ضرورت سے زیادہ اظہار کیا ہے۔ اور متعدد ڈیموکریٹس سمجھتے ہیں کہ ہیلتھ کیئر پر صدر نے بہت وقت صرف کیا ہے، جب کہ معیشت اور روزگار کے ذرائع میں اضافے کے لیے لوگوں کی اولین تشویش کے معاملوں پر زیادہ توجہ نہیں دی گئی، جن پر نومبر میں ہونے والے کانگریس کے انتخابات کا دارو مدار ہے۔

الیزبیتھ شرمن واشنگٹن کی امریکن یونی ورسٹی میں سیاسیات کے پروفیسر ہیں۔

وہ روزگار سے وابستہ خاندانوں اور بہت سے سیاست سے غیر وابستہ لوگوں سے رابطے میں ہیں۔ اور صدر اوباما روزگار کے معاملے کو اولیت اور مرکزیت دیتے ہیں۔ اُنھوں نے واضح کیا ہے کہ ہمیں معیشت پر اپنی توجہ مرکوز رکھنی ہے، اور سننے والوں کی طرف سے اِسی بات پر دیر تک تالیاں بجا کر ستائش کی گئی۔

صدارتی تاریخ دان ایلن لیچ مین کا کہنا ہے کہ گذشتہ برس زیادہ تر داخلی سیاسی بحث چھائی رہی، اور ہیلتھ کیئر کی جگہ روزگار کے وسائل کی فراہمی اہم معاملہ بن کر سامنے آیا ہے۔

سٹیفن شمٹ آیوووا سٹیٹ یونی ورسٹی میں پولیٹیکل سائنٹسٹ ہیں۔ وہ کہتے ہیں: ‘ میں سمجھتا ہوں کہ کانگریس کے سامنے مختصر اور ہلکا ایجنڈا رکھا گیا ہے۔’

صدر جمی کارٹر، رونالڈ ریگن اور بل کلنٹن نے بھی اسی طرح کے وعدے کیے تھے لیکن انھیں بھی کوئی خاص کامیابی نصیب نہیں ہو سکی تھی۔

امریکن یونی ورسٹی کے تاریخ دان ایلن لیچ مین کہتے ہیں کہ مسٹر اوباما نے صدر کے طور پر پہلے ہی سال میں کچھ اہم سبق سیکھے ہیں:

‘براک اوباما غلط فہمی کا شکار ہیں کہ وہ واشنگٹن کے کلچر کو تبدیل کر پائیں گے، اور یہ کہ ری پبلکن پارٹی کے ارکان کے ساتھ چند ملاقاتیں یا قدامت پسندوں کے قائدین کے ساتھ عشائیے منعقد کر کے دوسرے پارٹی ارکان کا تعاون حاصل کر لیں گے۔’

لگتا یوں ہے کہ صدر اپنے داخلی ایجنڈا پر زور دیں گے، جسے معیشت اور روزگار کی فراہمی پر زیادہ توجہ مرکوز کرنے کی غرض سے کسی قدر تبدیل کیا گیا ہے۔ اب اِس میں نظامِ صحت کی اصلاحات پر زیادہ زور نہیں دیا گیا۔

سیاسی ماہرین کے مطابق جب بھی ممکن ہوا صدر اوباما ری پبلکن پارٹی والوں سے رابطے بڑھائیں گے۔ لیکن اُنھوں نے خبردار کیا ہے کہ کم ہی امکان ہے کہ ری پبلکن پارٹی کے ارکان تعاون کے لیے تیار ہوں۔ اِس ضمن میں اُن کا کہنا ہے کہ جائزوں سے پتا چلتا ہے کہ نومبر کے وسط مدتی کانگریشنل انتخابات میں امکان ہے کہ ری پبلکن پارٹی زیادہ نشستیں جیتے گی۔

XS
SM
MD
LG