رسائی کے لنکس

امریکی صدر کا خطاب: انسانی حقوق کے کارکنوں، دانش وروں اور تجزیہ نگاروں کا خیرمقدم


امریکی صدر کا خطاب: انسانی حقوق کے کارکنوں، دانش وروں اور تجزیہ نگاروں کا خیرمقدم
امریکی صدر کا خطاب: انسانی حقوق کے کارکنوں، دانش وروں اور تجزیہ نگاروں کا خیرمقدم

انسانی حقوق کے کارکنوں، دانش وروں، تجزیہ نگاروں اور صحافیوں نے امریکی صدر براک اوباما کے امریکی کانگریس سے پہلے خطاب میں افغانستان اور عراق سے متعلق اعلانات کا خیرمقدم کیا ہے اور اِن دونوں ملکوں سے امریکی افواج کی مکمل واپسی کے اعلان کو خوش آئند قدم قرار دیا ہے۔

انسانی حقوق کی سرگرم تنظیم ‘فورم فار سول رائٹس’ کے جنرل سیکریٹری اور سینئر تجزیہ نگار سید منصور آغا نے افغانستان اور عراق کے حالات کو بہتر بنانے میں اوباما انتظامیہ کی کوششوں کو سراہتے ہوئے اِس امید کا اظہار کیا ہے کہ اِن کے بہتر نتائج برآمد ہوں گے۔ تاہم اُنھوں نے یہ بھی کہا کہ اِن ملکوں میں امریکی جنگ سے جو نقصانات ہوئے ہیں اُن کی تلافی بھی ہونی چاہیئے۔

اُن کے بقول عراق اور افغانستان کے معاملوں اور اِن دونوں ممالک کی جو موجودہ صورتِ حال ہے اُس خرابی کے لیے بش انتظامیہ ذمے دار ہے۔

‘ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اوباما صاحب جو اِس ضمن میں کوشش کر رہے ہیں اُس کے کچھ نہ کچھ مثبت نتائج ضرور نکلیں گے۔ عراق سے فوج واپس ہٹانے کا فیصلہ بہت اچھا ہے، قابلِ مبارک باد ہے۔ اُس کا خیر مقدم کرنا چاہیئے۔ لیکن ساتھ ہی امریکہ کو یہ بھی دیکھنا چاہیئے کہ بش صاحب نے جو عراق پر حملہ کیا تھا اُس کے نتیجے میں جو وہاں نقصانات ہوئے ہیں اُس کی تلافی کس طرح سے ہو گی۔ یہی صورتِ حال افغانستان کی ہے۔ تدارک کے لیے بھی اقدامات کیے جانے چاہئیں اور وہ اقدامات اِس لیے ہونے چاہئیں کہ وہاں کے عوام مطمئن ہوں۔’

اُنھوں نے امریکی معیشت کے استحکام اور روزگار کے مزید مواقع پیدا کرنے کی کوششوں کے اعلان کے بارے میں کہا کہ اِس کا اختیار ہر ملک کو حاصل ہے کہ وہ اپنے عوام کو روزگار کے بہتر مواقع فراہم کرے۔ لیکن اگر امریکہ میں ‘آؤٹ سورسنگ’ کم کرنے یا اُس پر پابندی لگانے کی کوشش کی گئی تو اُس سے امریکہ کو ہی نقصان ہو گا۔منصور آغا نے کہا کہ یہ سیاسی فیصلہ ہو گا اقتصادی نہیں۔

واضح رہے کہ امریکی صدر نے اُن کمپنیوں پر ٹیکس لگانے کا اعلان کیا ہے جو آؤٹ سورسنگ کرتی ہیں۔ اگر یہ کم ہوتی ہے تو اُس سے بھارت زیادہ متاثر ہو گا۔

اُدھر ایک سماجی تنظیم، یونائٹڈ مسلمز آف انڈیا کے جنرل سیکریٹری ڈاکٹر سید احمد خان نے امریکی صدر کے اعلانات کا خیر مقدم کیا ہے اور کہا ہے کہ اگر لندن کانفرنس میں طالبان کو بھی نمائندگی کا حق ملتا ہے تو یہ کانفرنس کامیاب ہو گی اور اِس خطے پر اُس کے دوررس اثرات مرتب ہوں گے۔

‘آل انڈیا طبی کانگریس’ کے یوتھ ونگ کے جنرل سیکریٹری ڈاکٹر صباحت اللہ کا کہنا ہے کہ اُنھیں امید ہے کہ امریکی صدر کی کوششوں سے افغانستان اور عراق میں امن قائم ہو گا، لیکن اِسی کے ساتھ ساتھ اُنھوں نے اِس بات پر زور دیا ہے کہ امریکہ اور برطانیہ کو چاہیئے کہ وہ ایران کے تعلق سے اپنی پالیسی میں تبدیلی لائیں۔

ماہنامہ جریدے ‘نوائے اسلام’ کے ایڈیٹر، عزیز عمر سلفی نے اپنے ردِ عمل میں کہا کہ اگر افغانستان اور عراق سے امریکی افواج کی مکمل واپسی ہوتی ہے تو بہرحال خرابیِ بسیار کے بعد یہ ایک خوش آئند قدم ہو گا اور دونوں ملکوں کے عوام کو اپنی پسند کا انتظام قائم کرنے کا موقع ملے گا۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG