رسائی کے لنکس

سرکاری قرضہ کے مسئلے پر تصفیہ کے لیے صدر اوباما کا زور


صدر براک اوباما
صدر براک اوباما

صدر اوباما نے کہا "کرہ ارض پر سب سے عظیم ملک کو چلانے کا یہ کوئی طریقہ نہیں۔ یہ ایک خطرناک کھیل ہے جو ہم نے اس سے پہلے کبھی کھیلا ہے اور نہ اب ایک ایسے وقت میں اس میں شریک ہونے کے متحمل ہوسکتے ہیں جب بہت سے گھرانوں کی نوکریاں اور زندگیاں داؤ پر لگی ہوئی ہیں۔ ہم واشنگٹن میں جاری جنگ میں امریکی عوام کو نقصان پہنچانے کی اجازت نہیں دے سکتے"۔

صدر براک اوباما نے امریکی عوام پر زور دیا ہے کہ وہ 2 اگست کی ڈیڈلائن سے قبل سرکاری قرضہ کی حد میں اضافہ کی منظوری کے لیے قانون سازوں پر دباؤ ڈالیں۔

صدر نے یہ اپیل پیر کی شب قوم سے اپنے ایک نشریاتی خطاب میں کہی جسے انہوں نے قرض کی سطح اور اخراجات میں کٹوتی سے متعلق اختلافات دور کرنے کے لیے امریکی کانگریس پر دباؤ بڑھانے کے ایک حربے کے طور پر استعمال کیا۔

وائٹ ہاؤس اور کیپٹل ہل میں کئی ہفتوں سے جاری ملاقاتوں، ری پپبلکنز کے واک آؤٹس اور کریڈٹ ریٹنگ ایجنسیز کی جانب سے بار بار خبردار کیے جانے کے باوجود فریقین کے اس حوالے سے کسی معاہدہ پر عدم اتفاق کے پسِ منظر میں صدر اوباما نے اپنے خطاب میں کانگریس پر تنازع کے جلد حل کے لیے زور دیا۔

اس سے قبل سینیٹ میں اکثریتی ڈیموکریٹ رہنما ہیری ریڈ نے سرکاری اخراجات میں 27 کھرب ڈالرز کی مجوزہ کٹوتیوں کا منصوبہ پیش کیا تھا جس میں معاشرتی تحفظ اور طبی سہولتوں کی فراہمی کے لیے مختص بجٹ کو استثنیٰ دیا گیا ہے۔

منصوبے کے تحت قرض کی حد میں تجویز کردہ اضافہ اگلے سال ہونے والے صدارتی اور کانگریس کے انتخابات تک کارگرہوگا۔ منصوبے میں دونوں جماعتوں کے نمائندوں پر مشتمل ایک کمیٹی کے قیام کی تجویز بھی پیش کی گئی ہے جو سرکاری اخراجات میں مزید کٹوتیوں کی سفارش کرے گی۔

سینیٹر ہیری ریڈ
سینیٹر ہیری ریڈ

ڈیموکریٹ رہنما کے منصوبے کے مقابلے میں ایوانِ زیریں کے ری پبلکن اسپیکر جان بینر نے قرضے کی حد میں دس کھرب ڈالرز کےاضافے اوراخراجات میں 12 کھرب ڈالرز کی فوری کٹوتی کی تجاویز پر مشتمل اپنا ایک علیحدہ منصوبہ پیش کیا ہے۔ منصوبے کے دوسرے مرحلے میں اگلے سال سرکاری قرضے کی حد میں مزید اضافے کی مشروط پیشکش بھی کی گئی ہے۔

جان بینر نے بھی اس مقصد کے لیے دونوں جماعتوں کے نمائندوں پر مشتمل کمیٹی کے قیام کی تجویز پیش کی ہے جبکہ ان کی جانب سے متوازن بجٹ کی تیاری کے لیے آئینی ترمیم کی سفارش بھی کی گئی ہے۔

تاہم اپنے خطاب میں صدر اوباما نے جان بینر کے منصوبے کو ایک "خطرناک کھیل" کا حصہ قرار دیا جس کے نتیجے میں ان کے بقول حالیہ بحث چھ ماہ بعد پھر اٹھ کھڑی ہوگی۔

صدر اوباما کے الفاظ میں، "کرہ ارض پر سب سے عظیم ملک کو چلانے کا یہ کوئی طریقہ نہیں۔ یہ ایک خطرناک کھیل ہے جو ہم نے اس سے پہلے کبھی کھیلا ہے اور نہ اب ایک ایسے وقت میں اس میں شریک ہونے کے متحمل ہوسکتے ہیں جب بہت سے گھرانوں کی نوکریاں اور زندگیاں داؤ پر لگی ہوئی ہیں۔ ہم واشنگٹن میں جاری جنگ میں امریکی عوام کو نقصان پہنچانے کی اجازت نہیں دے سکتے"۔

اس سے قبل سینیٹر ریڈ نے کہا تھا کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ری پبلکنز صدر اوباما کو شرمندہ کرنے اور سرکاری قرضہ کی حد سے متعلق مسئلہ پر انتظامیہ کو 'شٹ ڈاؤن' کرانے پر یکسو ہیں۔

سینیٹر ریڈ اور ان کے ڈیموکریٹ ساتھی چارلس شمر کا کہنا تھا کہ جان بینر کو رجعت پسند ٹی پارٹی تحریک سے منسلک قانون دان استعمال کر رہے ہیں۔ سینیٹر ریڈ کے بقول "ہم ان شدت پسندوں کو اس بحث سے برآمد ہونے والے نتیجے پر اثر انداز ہونے اور ملک کی سمت کا تعین کرنے کی اجازت نہیں دیں گے"۔

چارلس شمر کے بقول، "ایوان میں 100 ایسے افراد موجود ہیں جنہیں اس سے کوئی دلچسپی نہیں کہ ہم دیوالیہ ہوجائیں گے، جو نظریاتی انتہا پر ہیں اور جنہوں نے ایوان کی ری پبلکن قیادت کو امریکہ کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کے لیے سنجیدہ کوششیں کرتے نہیں دیکھا"۔

صدر اوباما کے خطاب کے بعد اپنے علیحدہ نشریاتی خطاب میں ایوان کے اسپیکر جان بینر نے الزام عائد کیا کہ صدر ماضی میں "بڑے پیمانے پراخراجات" میں مصروف رہے جس کے باعث اب وہ ملکی قرضہ کی حد میں تاریخی اضافے کی درخواست کر رہے ہیں۔

جان بینر
جان بینر

جان بینر کے بقول، "یہ تلخ حقیقت ہے کہ صدر اپنے لیے چھ ماہ قبل بھی ایک بلینک چیک طلب کر رہے تھے اور وہ آج بھی اسی بلینک چیک کے خواہاں ہیں۔ لیکن ایسا نہیں ہوگا"۔

بینر نے کہا کہ انہیں امید ہے کہ ان کا تجویز کردہ منصوبہ ایوانِ نمائندگان سے منظور ہوجائے گا۔ انہوں نے اپنے منصوبے کی ڈیموکریٹس کی اکثریت رکھنے والی سینیٹ سے بھی منظوری کی پیش گوئی کرتے ہوئے کہا کہ اگرکانگریس سے منظوری کے بعد صدر اوباما اس بل پر دستخط کردیتے ہیں تو اس کے ذریعے اس بحرانی ماحول کا خاتمہ ہوجائے گا جو ان کے بقول خود صدر اوباما کا پیدا کردہ ہے۔

اس سے قبل اپنے خطاب میں صدر اوباما نے جان بینر کے منصوبے کو کانگریس سے منظوری کی صورت میں ویٹو کرنے کا براہِ راست کوئی عندیہ نہیں دیا۔ اس کے برعکس امریکی صدر کا کہنا تھا کہ وہ چاہتے ہیں کہ کانگریس کے رہنما آئندہ چند روز میں ایک ایسی مناسب مصالحت پر متفق ہوجائیں جسے ایوان اور سینیٹ سے منظور کرایا جاسکے اور وہ اس پر دستخط کرکے اسے قانون کی شکل دے دیں۔

صدر نے کہا کہ امریکی عوام واشنگٹن سے بیزار ہوچکے ہیں جہاں "مصالحت ایک خراب لفظ کا درجہ حاصل کرچکا ہے"۔

اپنے خطاب میں صدر اوباما کا کہنا تھا کہ، "امریکی عوام نے ایک منقسم حکومت کے لیے تو ووٹ ضرور دیے ہوں گے تاہم انہوں نے ایک مفلوج حکومت کے لیے ووٹ ہرگز نہیں دیے۔ لہذا میں آپ سب سے اپیل کرتا ہوں کہ اپنی آواز اٹھائیں۔ اگر آپ مالی خسارے میں کمی کے لیے ایک متوازن پالیسی کے حامی ہیں تو اپنے حلقے کے رکنِ کانگریس کو اپنی رائے سے مطلع کریں۔ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ ہم اس مسئلہ کو مصالحت سے حل کرسکتے ہیں تو اس پیغام کو آگے بڑھائیے"۔

اپنے خطاب میں صدر اوباما نے ڈیموکریٹ سینیٹر ریڈ کے پیش کردہ منصوبے کی توثیق کرتے ہوئے اپنے اس موقف کو دہرایا کہ امریکہ کے معاشی مسائل کے دیرپا حل کے لیے ضروری ہے کہ مہنگے سرکاری پروگرامز بشمول معاشرتی تحفظ اور صحتِ عامہ کی سہولیات کے منصوبوں میں بچت کی جائے۔

سینیٹر ریڈ کے منصوبے کو ری پبلکنز کی جانب سے سینیٹ میں انتظامی رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے اور فی الحال یہ بھی واضح نہیں کہ ایوانِ نمائندگان کے اسپیکر جان بینر ایوان میں ری پبلکنز کی اکثریت ہونے کے باوجود اپنے پیش کردہ منصوبے کی منظوری کے لیے درکار ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوپائیں گے یا نہیں۔

اپنے خطاب میں قرضوں کی عدم ادائیگی پر امریکہ کے دیوالیہ ہونے کے امکان کو "بے رحمانہ اور غیر ذمہ دارانہ نتیجہ" قرار دیتے ہوئے صدر اوباما نے کہا کہ انہیں یقین ہے کہ مسئلے پر تصفیہ ہوجائے گا اور دونوں جماعتوں سے تعلق رکھنے والے بیشتر قانون ساز بالآخر اپنی سیاست کو پسِ پشت ڈال دیں گے۔

امریکہ اور دنیا بھر کی منڈیاں وائٹ ہاؤس اور کانگریس کے درمیان امریکہ کے سرکاری قرضہ کی حد میں اضافہ پر کسی تصفیہ کی شدت سے منتظر ہیں۔ گوکہ ان منڈیوں نے تاحال کوئی بڑا نقصان نہیں اٹھایا تاہم ماہرینِ معیشت نے خبردار کیا ہے کہ امریکہ کے قرضوں کے معاملے پر نادہندہ قرار پانے کے نتیجہ میں شرحِ سود میں اضافہ ہوگا جس کے انتہائی سنگین نتائج برآمد ہوں گے۔

XS
SM
MD
LG