رسائی کے لنکس

پاکستان اور افغانستان کے تعلقات میں ’’گرم جوشی‘‘


کابل میں عطیات دینے والے ملکوں نے ایک حالیہ بین الاقوامی کانفرنس میں افغانستان کے مستقبل کے لائحہ عمل پر غور و خوض کیا۔ اس موقع پر افغان اور پاکستانی حکومت کے درمیان تعلقات میں گرم جوشی بھی دیکھنے میں آئی۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات میں یہ تبدیلی کتنے عرصے باقی رہتی ہے ۔

برسوں سے افغانستان اور پاکستان بہت اچھے پڑوسی نہیں رہے ہیں۔ افغانستان کے صدر حامد کرزئی اکثر پاکستانی انٹیلی جنس پر انتہا پسند عسکریت پسندوں کو پناہ اور مدد دینے کا الزام عائد کیا کرتے تھے جو سرحد پار سے آکر افغانستان کے اندر حملے کرتے تھے۔پاکستان نے ہمیشہ اس الزام کی تردید کی ہے۔

لیکن اس سال ایسا لگتا ہے کہ تعلقات میں کچھ گرم جوشی آئی ہے ۔ مصالحت کے اظہار کے طور پر ،صدر کرزئی اور پاکستان کے وزیرِ اعظم یوسف رضا گیلانی کے درمیان گذشتہ مارچ میں اسلام آباد میں ملاقات ہوئی ۔پھر، 18 جولائی کو دونوں ملکوں نے ایک تجارتی سمجھوتے پر دستخط کیئے ۔ یہ ایک غیر معمولی واقعہ تھا۔ 1960 کی دہائی کے بعد، پہلی بار اس قسم کا دو طرفہ معاہدہ ہوا ہے اور ایک امریکی عہدے دار نے اسے بڑا اہم واقعہ قرار دیا۔

لیکن اس تبدیلی کی وجہ کیا ہے؟ جنوبی ایشیا کے امور کے لیے امریکی محکمۂ خارجہ کی سابق ڈپٹی اسسٹنٹ سیکرٹری ٹیریسیٹا شیفر کہتی ہیں کہ صدر کرزئی نے کیلنڈر میں 2011 کا سال دیکھا، یعنی وہ سال جب صدر اوباما نے کہا ہے کہ امریکی فوجیں افغانستان سے واپس جانا شروع کر سکتی ہیں، اگر حالات اجازت دیں۔

شیفر کہتی ہیں’’میں سمجھتی ہوں کہ بہت سی وجوہات کی بنا پر، مسٹر کرزئی اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ پاکستان کے ساتھ زیادہ قریبی تعلقات قائم رکھنا ان کے مفاد میں ہے اور 2011 کی تاریخ نے ان کی سوچ کو متاثر کیا ہے۔ تا ہم، پاکستان اور افغانستان کے درمیان قربت کا دور شروع ہوتا ہے اور پھر اس میں خلل پڑ جاتا ہے کیوں افغان پھر اپنی روش پر واپس آ جاتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ بس بہت ہو چکا، ہمیں بے وقوف بنایا جا رہا ہے، اور پھر وہ اپنے پاکستانی بھائیوں کے خلاف ہو جاتے ہیں۔‘‘

افغانستان میں اپنا اثر و رسوخ قائم رکھنا پاکستان کی اسٹریٹجی کا حصہ رہا ہے ۔ اس اصول کے تحت، اسلام آباد کو بھارت کے اثر و رسوخ کا توڑ کرنے کے لیے، افغانستان میں اپنے لیے ٹِکنے کی جگہ بر قرار رکھنی چاہیئے۔ تجزیہ کار کہتے ہیں کہ بھارت افغانستان میں اپنے اقتصادی اور سفارتی پنجے گاڑ رہا ہے جو پاکستان کے لیے تشویش کا باعث ہے ۔جارج ٹاؤن یونیورسٹی کی پروفیسر کرسٹین فیئر آج کل پاکستان کا دورہ کر رہی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ بھارت کی نظریں بھی کیلنڈر پر ہیں۔

فیئرکا کہنا ہے’’دیکھنا یہ ہے کہ بھارت اپنے کارڈز کس طرح کھیلتا ہے ۔ آج کل امریکہ کی فراہم کی ہوئی سکیورٹی تلے اسے کھلی چھٹی ملی ہوئی ہے۔ بھارت میں آج کل یہ بحث جاری ہے کہ جب امریکی افغانستان سے چلے جائیں گے تو بھارت کیا کرے گا کیوں کہ ظاہر کہ اس وقت وہ یہ سب کچھ نہیں کر سکے گا جو آج کل کر رہا ہے۔تو مسئلہ یہ ہے کہ اس کھیل میں بہت سی طاقتیں شامل ہیں اور وہ ایک دوسرے پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔‘‘

امریکہ ، افغانستان اور پاکستان کے درمیان تعلقات میں گرم جوشی پر خوش ہے کیوں کہ اس طرح اس کی سفارتی اور سیاسی زندگی کچھ آسان ہو جائے گی۔ واشنگٹن افغانستان میں بغاوت سے جنگ کر رہا ہے ، کابل میں ایک کمزور لیکن کرپٹ حکومت کو سہارا دیے ہوئے ہے اور پاکستانی حکومت پر زور دیتا رہتا ہے کہ وہ اپنے علاقے میں موجود عسکریت پسند عناصر کے خلاف سخت کارروائی کرے ۔ ان تمام مقاصد کے درمیان توازن قائم رکھنا آسان نہیں۔

لیکن تجزیہ کار کہتے ہیں کہ افغانستان میں کچھ حلقے اسلام آباد اور کابل کے درمیان مصالحت پر خوش نہیں۔ افغانستان میں یورپی یونین کے خصوصی نمائندے فرانسس وینڈرل کہتے ہیں کہ افغانستان کی نسلی اقلیتیں پریشان ہیں کہ مصالحت سے صدر کرزئی اور ان کے پشتون ساتھیوں کے ہاتھ مضبوط ہو جائیں گے ۔ اور بعض پشتون بھی اس صورت ِ حال پر نا خوش ہیں۔

پاکستان اور افغانستان کے تعلقات میں ’’گرم جوشی‘‘
پاکستان اور افغانستان کے تعلقات میں ’’گرم جوشی‘‘

وینڈرل کہتے ہیں’’میں سمجھتا ہوں کہ غیر پشتون اور پشتونوں کی اچھی خاصی تعداد بھی ناراض ہے۔ وہ کوئی ایسا سودا نہیں چاہتے جس سے حکومت میں غیر پشتونوں کا اثر و رسوخ کم ہو ۔ میرے خیال میں بہت سے پشتون بھی پاکستان کے سخت خلاف ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اچھے تعلقات کا یہ دور کتنے دن چلتا ہے۔‘‘

تجزیہ کار انتباہ کرتے ہیں کہ افغانستان اور پاکستان کے درمیان تعلقات میں اتار چڑھاؤ آتے رہتے ہیں۔ اگر 2008 جیسا واقعہ پھر ہوا، تو تعلقات میں گرم جوشی ختم ہو سکتی ہے ۔ 2008 میں خود کش بمباروں نے کابل میں بھارتی سفارت خانے پر دو بار حملہ کیا تھا۔ اس حملے کی ذمہ داری طالبان نے قبول کی تھی لیکن افغان حکومت نے اس کا الزام اشارتاً پاکستان کو دیا تھا اور کہا تھا کہ یہ ایک بیرونی ملک کی کارستانی ہے ۔

XS
SM
MD
LG