رسائی کے لنکس

بھارت اور پاکستان کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی پر کشمیر میں تشویش


بھارت اور پاکستان کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی پر کشمیر میں تشویش
بھارت اور پاکستان کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی پر کشمیر میں تشویش


کشمیر میں بھارت پاکستان سرحد پر فائرنگ کے بڑھتے ہوئے واقعات، ایک دوسرے کے خلاف الزامات اور جوابی الزامات سے پیدا شدہ صورتِ حال اور ممبئی حملوں کے معاملے پر طرفین کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی نے کشمیری عوام اور اُن کی سیاسی قیادت میں تشویش کی لہر دوڑا دی ہے۔

ہفتے کو جموں میں حزبِ اختلاف کی جماعت پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) نے صورتِ حال پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے بھارت پر زور دیا کہ وہ جنوبی ایشیا میں امن اور تنازعات کو افہام و تفہیم کے ذریعے حل کرنے کی خواہشات کو قابلِ احترام سمجھتے ہوئے پاکستان کے ساتھ باہمی مذاکرات کے سلسلے کو بحال کرے۔

پارٹی کی مجلسِ عاملہ کےاجلاس میں منظور کی گئی قرارداد میں اِس امر پر افسوس اور تشویش کا اظہار کیا گیا کہ دونوں ملکوں کے درمیان سرد جنگ چھڑ سکتی ہے۔ پارٹی نے خبردار کیا کہ اگر حالات پر فوری طور پر قابو نہ پایا گیا تو خصوصاً کشمیر کے علاقے میں خطرناک نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔

اِس موقع پر پی ڈی پی کے سرپرست اور سابق وزیرِ اعلیٰ مفتی محمد سعید نے کہا کہ پاکستان کی سول سوسائٹی نے مکالمے اور موافقت ِ نو کے حوالے سے حوصلہ افزا ردِ عمل ظاہر کیا ہے جِس کا حکومت ِ بھارت کو مثبت جواب دینا چاہیئے۔

اُدھر وزیرِ اعلیٰ عمر عبد اللہ کا کہنا ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان تناؤ اور کشیدگی اِس خطے میں امن کے لیے خطرہ پیدا کرسکتی ہے جِس کا خمیازہ سب سے زیادہ کشمیری عوام کو اُٹھانا پڑے گا۔

اُنھوں نے کہا کہ دونوں ملکوں کے عام لوگ امن اور بہتر تعلقات کے خواہاں ہیں، جو بندوق کے ذریعے حل نہیں کیے جاسکتے۔ لہٰذا باہمی مذاکرات کے عمل کو بحال کرنا ناگزیر ہے۔

تاہم اُن کے والد اور بھارت کے وفاقی وزیر ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے جموں میں صحافیوں کے ساتھ غیر رسمی گفتگو کے دوران کہا کہ جب تک پاکستان ممبئی حملوں میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی نہیں کرتا مذاکرات کا سلسلہ بحال نہیں کیا جاسکتا۔

میر واعظ عمر فاروق کی کل جماعتی حریت کانفرنس نے صورتِ حال کو گھمبیر قرار دیتے ہوئے کہا کہ کشمیری عوام اِس پر بے حد متفکر ہیں۔ اُن کا استدلال تھا کہ دونوں ملکوں کے درمیان تناؤ اور خراب تعلقات کی اصل وجہ کشمیر ہے اور جب تک کشمیر کو اُس کے عوام کی امنگوں اور خواہشات کے مطابق حل نہیں کیا جاتا جنوبی ایشیا میں امن کو برابر خطرہ لاحق رہے گا۔

  • 16x9 Image

    یوسف جمیل

    یوسف جمیل 2002 میں وائس آف امریکہ سے وابستہ ہونے سے قبل بھارت میں بی بی سی اور کئی دوسرے بین الاقوامی میڈیا اداروں کے نامہ نگار کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں۔ انہیں ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں اب تک تقریباً 20 مقامی، قومی اور بین الاقوامی ایوارڈز سے نوازا جاچکا ہے جن میں کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کی طرف سے 1996 میں دیا گیا انٹرنیشنل پریس فریڈم ایوارڈ بھی شامل ہے۔

XS
SM
MD
LG