رسائی کے لنکس

مجوزہ امن مذاکرات سے قبل پارلیمنٹ کو اعتماد میں لینے کی ضرورت پر زور


مجوزہ امن مذاکرات سے قبل پارلیمنٹ کو اعتماد میں لینے کی ضرورت پر زور
مجوزہ امن مذاکرات سے قبل پارلیمنٹ کو اعتماد میں لینے کی ضرورت پر زور

مبصرین کا ماننا ہے کہ نومبر 2008ء میں ممبئی حملوں کے بعد بھارت کی طرف سے یکطرفہ طور پر دوطرفہ مذاکرات کے عمل کو معطل کردینے کے فیصلے اور اس عرصے کے دوران دو طرفہ تلخیوں میں اضافے نے بظاہر خیر سگالی کے اس ماحول کو خاصا نقصان پہنچایا ہے جو 2004ء میں شروع ہونے والے امن کے عمل اور اعتماد سازی کے اقدامات کی وجہ سے پروان چڑھا تھا۔

قومی اسمبلی میں حزب اقتدار اور حزب مخالف کی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے اراکین نے بھارت کی طرف سے دو طرفہ امن مذاکرات دوبارہ شروع کرنے کی تجویز کا خیر مقدم کیا ہے۔ لیکن ان سب کا ماننا ہے کہ بات چیت مفید اور ایجنڈے پر سر فہرست کشمیر کے علاوہ پانی کے مسئلے پر دوطرفہ تنازعات کا حل ہونا چاہیئے۔ حکمران پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والی قومی اسمبلی کی کمیٹی برائے امور خارجہ کی رکن پلوشہ خان نے وی او اے سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اگر پانی پر دو طرفہ اختلافات ختم نہ ہوئے تو آگے چل کر یہ پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ کی وجہ بن سکتے ہیں۔

پارلیمنٹ کے ایوان بالا یا سینٹ میں قائد حزب اختلاف اور مسلم لیگ (ق) کے سنیئر رہنما وسیم سجاد نے بھی پاکستان اور بھارت کے درمیان پانی کا تنازع کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرنے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ بھارت کی کوشش ہے کہ بات چیت کے نئے دور میں دہشت گردی کے معاملے کو سرفہرست رکھے لیکن وسیم سجاد کے بقول بھارتی کشمیر میں حالیہ دنوں میں ایک بار پھر ایک ہیجان کی سی صورت حال ہے جو اس تنازع کو بھی ترجیحی بنیادوں پر حل کرنے کی ضرورت کو اجاگر کرتی ہے۔

پلوشہ خان کا کہنا ہے کہ حکومت کو پاک بھارت مذاکرات کا ایک نیا دور شروع ہونے سے پہلے اس میں زیر بحث آنے والے تمام امور کو پارلیمنٹ میں بحث کے لیے پیش کیا جائے تاکہ پاکستانی وفد جب مذاکرات میں شرکت کرے تو اسے ملک کے پارلیمان کی بھر پور حمایت حاصل ہو۔ اپوزیشن رہنما وسیم سجاد بھی اس نقطہ نظر سے اتفاق کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ حکومت کو پارلیمان میں تمام سیاسی جماعتوں کو اس حوالے سے اعتماد میں لینے کے بعد اپنے مذاکراتی وفد کو خارجہ سیکرٹری کی قیادت میں بھارت کے ساتھ بات چیت کے لیے بھیجنا چاہیئے۔

اپوزیشن اور حکمران اتحاد سے تعلق رکھنے والے اراکین سبھی اس بات پر متفق ہیں کہ دہشت گردی ایک ایسا مسئلہ ہے جو صرف بھارت نہیں بلکہ پاکستان کے لیے بھی ایک چیلنج ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر بھارت دہشت گردی کے مسئلے پر ترجیحی بنیادوں پر بات چیت کا خواہاں ہے تو پھر بلوچستان میں علیحدگی پسند بلوچ عسکری تنظیموں کو مبینہ بھارتی حمایت کے معاملے پر بھی پاکستان کو اس حوالے سے ٹھوس شواہد بھارتی حکام کے سامنے رکھنا ہوں گے۔

مبصرین کا ماننا ہے کہ نومبر 2008ء میں ممبئی حملوں کے بعد بھارت کی طرف سے یکطرفہ طور پر دوطرفہ مذاکرات کے عمل کو معطل کردینے کے فیصلے اور اس عرصے کے دوران دو طرفہ تلخیوں میں اضافے نے بظاہر خیر سگالی کے اس ماحول کو خاصا نقصان پہنچایا ہے جو 2004ء میں شروع ہونے والے امن کے عمل اور اعتماد سازی کے اقدامات کی وجہ سے پروان چڑھا تھا۔

XS
SM
MD
LG