رسائی کے لنکس

وزیرِ اعظم کا انتخاب 22 جون کو


پارلیمنٹ ہاؤس اسلام آباد
پارلیمنٹ ہاؤس اسلام آباد

صدر آصف علی زرداری نے قومی اسمبلی کا اجلاس جمعہ کی شام ساڑھے پانچ بجے طلب کیا ہے جس میں نئے قائد ایوان کا انتخاب کیا جائے گا جو پاکستان کا نیا وزیرِ اعظم ہو گا۔

سپریم کورٹ کی طرف سے وزیرِ اعظم یوسف رضا گیلانی کو اسمبلی کی رکنیت اور اُن کےعہدے سے نااہل قرار دیے جانے کے بعد نئے وزیرِ اعظم کے انتخاب کے لیے پیپلز پارٹی کی اپنے سیاسی اتحادیوں سے مشاورت جاری ہے۔

پی پی پی کے سینئیر رہنما اور سابق وفاقی وزیر خورشید شاہ نے اسلام آباد میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ نئے وزیر اعظم کے لیے کاغذات نامزدگی جمعرات کو جمع کرائے جائیں گے اور اُن کے بقول وزیرِ اعظم کے نام کا حتمی فیصلہ صدر زرداری کریں گے جو پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین بھی ہیں۔

پاکستان میں آئندہ الیکشن 2013ء کے اوائل میں متوقع ہیں جب موجودہ قومی اسمبلی کی پانچ سالہ مدت پوری ہو جائے گی۔ مگر وزیر اعظم گیلانی کی معزولی کے بعد مبصرین قبل از وقت عام انتخابات اور آنے والے مہینوں میں تکرار سے بھرپور سیاسی منظر نامے کی پیش گوئیاں کر رہے ہیں۔

چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے منگل کو اپنے مختصر فیصلے میں وزیرِ اعظم گیلانی کو نااہل قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ وہ 26 اپریل کو ہی اس حق سے محروم ہو گئے تھے جب عدالت عظمٰی کے ایک سات رکنی بینچ نے انھیں توہین عدالت کے جرم میں سزا سنائی تھی۔

یوسف رضا گیلانی
یوسف رضا گیلانی

عدالت عظمٰی نے معزول وزیر اعظم کو صدر زرداری کے خلاف بدعنوانی کے مقدمات بحال کرنے کے لیے حکومت پاکستان کی جانب سے سوئس حکام کو خط لکھنے کا حکم دے رکھا تھا مگر مسٹر گیلانی ایسا کرنے سے انکاری تھے کیونکہ ان کے بقول ملک کا آئین انھیں ایسا کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔

آئینی و قانونی ماہرین کہتے ہیں کہ عدالت عظمٰی ملک کے نئے وزیر اعظم کو بھی سوئس حکام کو خط لکھنے کا حکم دے گی۔

دریں اثناء معزول وزیر اعظم کے وکیل سینیٹر اعتزاز احسن نے کہا ہے کہ اُن کے موکل نےعدالت عظمٰی کے فیصلے کو تسلیم کر لیا ہے اس لیے وہ اس کے خلاف اپیل دائر کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے۔

سپریم کورٹ کے احاطے میں بدھ کو صحافیوں سے گفتگو میں اُنھوں نے کہا کہ توہین عدالت کے مقدمے میں سات رکنی بینچ نے اُن کے موکل کو نااہل قرار نہیں دیا تھا اور اس فیصلے کے خلاف پیپلز پارٹی کی قیادت نے اپیل دائر کرنے سے گریز کیا تھا کیونکہ انھیں ایسے ہی فیصلے کی توقع تھی جو ایک روز قبل چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے سنایا۔

سینیٹر اعتزاز احسن
سینیٹر اعتزاز احسن

’’ہمیں اس فیصلے پر تحفظات ہیں، (مگر) ہم اس پر عمل درآمد کریں گے۔ یوسف رضا گیلانی 26 اپریل سے نااہل ہو گئے ہیں اس کو (ہم) تسلیم کرتے ہیں، ہمارے تحفظات موجود ہیں کہ تین ججوں نے سات ججوں کے بینچ کے فیصلے میں ترمیم کر دی ہے۔‘‘

اعتزاز احسن نے اعتراف کیا کہ سوئس حکام کو خط لکھنے کے معاملے پر عدالت عظمیٰ نئے وزیر اعظم کی جاں بخشی بھی نہیں کرے گی۔

’’میرا خیال ہے کہ جب نیا وزیراعظم آئے گا تو سپریم کورٹ کے امپلیمنٹیشن بینچسے اس کو بھی ایک نیا حکم نامہ بھیجا جائے گا کہ خط لکھا جائے، تو وہ (نیا وزیر اعظم) فیصلہ کرے گا کہ خط لکھے یا نہ لکھے۔‘‘

اُنھوں نے اپنے موقف کو دہراتے ہوئے کہا کہ سوئس حکام کو خط لکھنے میں کوئی حرج نہیں لیکن خط نہ لکھنا جرم نہیں ہے تاوقتیکہ آصف علی زرداری صدر پاکستان ہیں۔

اعتزاز احسن نے کہا کہ 26 اپریل سے تصور کیا جائے گا کہ وزیر اعظم گیلانی بھی نہیں اور ان کی کابینہ بھی نہیں رہی مگر اس عرصے کے دوران پارلیمان کے فیصلے محفوظ ہیں۔

’’جو انتظامی فیصلے ہیں ان میں بہت سارے فیصلوں پر ذرا دیکھنا پڑے گا، عدالت کو تفصیلی فیصلے میں اس پر کچھ کرنا پڑے گا کیوں کہ جج بھی تعینات ہوئے ہیں، چیف جسٹس بھی تعینات ہوئے ہیں۔ سینکڑوں انتظامی فیصلے ہوئے ہیں، کئی معاہدے ہوئے دیگر ممالک سے جو اس وقت دوروں میں یوسف رضا گیلانی نے کیے ہیں یا (ان فیصلوں کو تحفظ دینے کے بارے میں) پارلیمان کو قانون سازی کرنی پڑے گی - 26 اپریل 2012ء سے لے کر 19 جون تک۔‘‘

اُنھوں نے حزب مخالف کی بڑی جماعت مسلم لیگ (ن) کے سربراہ نواز شریف کی طرف سے حکومت سے فوری انتخابات کرانے کے مطالبے پر بھی تعجب کا اظہار کیا۔

’’26 اپریل 2012ء سے (ملک میں) وفاقی حکومت کوئی نہیں ہے اور نواز شریف صاحب نے کہا ہے کہ حکومت فوراً الیکشن کرائے۔ حکومت کون سی ہے جو الیکشن کرائے؟ اس وقت تو ملک میں کوئی حکومت ہے ہی نہیں۔‘‘

اعتزاز احسن نے کہا کہ حکومت کی عدم موجودگی میں پارلیمان کا اجلاس طلب کرنے کی ذمہ داری صدر کی بنتی ہے، جس میں نئے وزیر اعظم کے انتخاب کا اہتمام کیا جائے۔ ’’اگر نئے وزیر اعظم کے انتخاب کا اہتمام نہیں ہوسکتا اور کوئی بھی اکثریت ثابت نہیں کرسکتا پھر صدر پر ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ قومی اسمبلی کو تحلیل کرکے نئے الیکشن کرائے۔‘‘

XS
SM
MD
LG