رسائی کے لنکس

”لندن کانفرنس میں پاکستان کے تحفظات اور مشاہدات کو ملحوظ خاطر رکھا جائے گا“


”لندن کانفرنس میں پاکستان کے تحفظات اور مشاہدات کو ملحوظ خاطر رکھا جائے گا“
”لندن کانفرنس میں پاکستان کے تحفظات اور مشاہدات کو ملحوظ خاطر رکھا جائے گا“

برطانیہ کے وزیر خارجہ ڈیوڈ ملی بینڈ نے کہا ہے کہ اس ماہ کے آخر میں منعقد ہونے والی لندن کانفرنس میں افغانستان کی صورتحال کے حوالے سے پاکستان کے تحفظات اور مشاہدات کو لازمی ملحوظ خاطر رکھا جائے گا۔

ہفتے کو اسلام آباد میں اپنے پاکستانی ہم منصب شاہ محمود قریشی کے ساتھ مشترکہ نیوزکانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ان کے دورے کا بنیادی مقصد بھی یہی ہے کہ لندن کانفرنس کے تناظر میں پاکستان کے نکتہ نظر اور آراء سے آگاہی حاصل کی جائے۔

ڈیوڈ ملی بینڈ کاکہنا تھا کہ 28جنوری کو منعقد ہونے والی کانفرنس میں 60کے قریب ملکوں سے رہنماء شریک ہورہے ہیں جو افغانستان کی ترقی، نظام حکومت اور سلامتی کی ضروریات کے علاوہ اس بات پر بھی غور کریں گے کہ جنگ سے متاثرہ اس ملک کی سلامتی میں علاقائی ملک کیا کردار اداکرسکتے ہیں۔برطانوی وزیرخارجہ کے مطابق افغانستان کو درپیش مسائل کے حل اور یہاں امن،استحکام اور ترقی کے لیے پاکستان کا تعاون ناگزیر ہے کیونکہ ان کے بقول یہاں سلامتی کی صورتحال کا انحصار کسی حد تک پاکستان میں سلامتی کی صورتحال پر ہے۔

پاکستانی وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے لندن کانفرنس کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان اس میں نہایت تعمیری انداز میں شرکت کرے گا کیونکہ وہ سمجھتا ہے کہ افغانستان میں امن اور استحکام خود اسلام آباد کے لیے بہت اہمیت کا حامل ہے۔ان کا کہنا تھا کہ پاکستان نے برطانیہ اور اتحادی افواج کو پاکستان آرڈیننس فیکٹری میں تیار ہونے والے اسلحے کی فراہمی کی پیش کش بھی کی ہے۔

خیال رہے کہ لندن کانفرنس ایک ایسے وقت پر منعقد ہونے جارہی ہے جب اقوام متحدہ کی طرف سے افغانستان میں سلامتی کی بگڑتی ہوئی صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا جارہا ہے اور کہا جارہا ہے کہ اگر افغان حکومت اور عالمی برادری نے مل کر اس طرف توجہ نہ دی تو ملک میں جاری مشن کی کامیابی خطرے میں پڑ سکتی ہے۔

پاکستان نے حال ہی میں امریکی صدر اوباما کی نئی حکمت عملی کے تحت افغانستان میں مزید افواج کی تعینانی پر تشویش کا اظہار کیا ہے کہ کیونکہ اسے خدشہ ہے کہ اس سے مزید عسکریت پسند سرحد پار کرکے اس کے علاقوں میں داخل ہوسکتے ہیں۔

افغانستان کے لیے پاکستان کے سابق سفیر ایاز وزیر نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ لند ن کانفرنس کا مقصد شریک ممالک کو ایک مرکزی نکتے پر متفق کرنا ہے تاہم اُن کے بقول مسئلے کا حل ملک سے باہر نہیں بلکہ خود افغانستان کے اندر ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ اس سے قبل بھی افغانستان کی صورت حال کے بارے میں کئی ملک غور کرتے رہے ہیں ا ور آئندہ بھی ایسا ہوگا لیکن ایاز وزیر کے بقول سب سے اہم بات یہ ہے کہ افغانستان میں مسائل کا حل ڈھونڈ ا جائے۔ اُنھوں نے کہا کہ لندن میں ہونے والی کانفرنس ایک اچھا اقدام ہے تاہم اس میں افغانستان کے مسئلے کا حل اُن کے بقول مشکل ہو گا۔

حز ب اختلاف کی جماعت مسلم لیگ (ن) کے چیئرمین راجہ ظفر الحق کا کہنا ہے کہ پڑوسی ملک افغانستان میں جو کچھ ہوتا ہے اُس کے براہ راست اثرات پاکستان پر پڑتے ہیں اور اُنھوں نے یہ بھی کہا کہ افغانستان سے غیر ملکی فوجوں کے انخلاء کے مجوزہ منصوبے سے بھی پاکستان خاصا پریشان ہے بلکہ اس پر بین الااقوامی برداری کو بھی تشویش ہے کیوں راجہ ظفر الحق کے بقول اب بھی تازہ اعدادو شمار یہ ظاہر کرتے ہیں کہ افغانستان کے بیشتر حصوں میں طالبان سرگرم ہیں۔

XS
SM
MD
LG