رسائی کے لنکس

سال 2011ء: پاک امریکا تعلقات کا مشکل ترین سال


سال 2011ء: پاک امریکا تعلقات کا مشکل ترین سال
سال 2011ء: پاک امریکا تعلقات کا مشکل ترین سال

امریکی وزارت خارجہ بھی اس بات کا اعتراف کر چکی ہے کہ 2011ءپاک امریکا تعلقات کے لئے مشکل ترین سال تھا اور امید ظاہر کی گئی ہے کہ آئندہ یہ تعلقات بہترہوں گے

دہشت گردی کی جنگ کے خلاف اہم اتحادیوں امریکا اور پاکستان کے تعلقات سے متعلق سال دو ہزار گیارہ مشکل ترین سال ثابت ہوا ۔ سال کے آغاز پر ہی ریمنڈ ڈیوس سے شروع ہونے والے تنازع کا اختتام سلالہ چیک پوسٹ پر حملے سے ہوا جس کے ’دھوئیں‘ نے دونوں ممالک کے تعلقات کو ایسے دھندلایا کہ تادم تحریر صورتحال واضح نہیں ہو سکی ۔

ستائس جنوری 2011ء کو پاکستان میں امریکی اہلکار ریمنڈ ڈیوس کی گاڑی کی ٹکر سے دو شہری جاں بحق ہو گئے جس کے بعد ریمنڈ ڈیوس کو حراست میں لے لیاگیا ۔ امریکہ کا اصرار تھا کہ ریمنڈ ڈیوس کو سفارتی استثنیٰ حاصل ہے لیکن پاکستان میں اس حوالے سے ایک لمبی اور اعصاب شکن بحث چھڑ گئی۔ اسی دوران پاکستان کی جانب سے عدالتی کارروائی کا بھی آغاز کردیاگیا۔ ہوتا ہوتا یہ سلسلہ16 مارچ تک پہنچا جب ریمنڈ ڈیوس کو دیت کی ادائیگی کے بعد رہا کر دیا گیا ۔

ریمنڈ ڈیوس کے معاملے پر 48 دن تک مسلسل امریکی اور پاکستانی حکام میں شدید اختلافات رہے۔ اسے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں دونوں اتحادیوں کے درمیان سال 2011ء کاپہلا بڑا دھچکا قرار دیاجاسکتا ہے

ریمنڈ ڈیوس کی رہائی کے بعد بھی اپریل اور مئی میں پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے جنوبی و شمالی وزیرستان میں ڈرون حملوں کے خلاف پشاور اور کراچی سمیت مختلف شہروں میں دھرنے دیئے گئے ۔ پھر اس سمت میں ایک اور اقدام یہ اتھایا گیا کہ پاکستان کی جانب سے نیٹو سپلائی معطل کردی گئی ۔

دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کی بحالی کیلئے کوششیں جاری ہی تھیں کہ 2مئی کو سال کا سب سے بڑا واقعہ رونما ہو گیا جب اسامہ بن لادن کو پاکستان کی ایبٹ آباد میں واقعہ فوجی چھاؤنی سے کچھ فاصلے پر امریکی عسکری آپریشن میں ہلا ک کر دیا گیا۔ بعد ازاں، ملک کے اندر اسے خود مختاری پر حملہ قرار دیا گیا۔

حکومت پاکستان کو اندرون ملک ہر طرف سے سخت رد عمل کا سامنا کرنا پڑا۔ اپوزیشن اور اس کی تمام جماعتیں ملک کی خود مختاری کے حوالے سے حکومت اور عسکری قیادت تک کے لئے سوالیہ نشان بن گئیں۔ ملک بھر میں احتجاج ہوئے اور جلسے جلوس نکالے گئے۔ یہاں تک کہ حکومت کو پارلیمنٹ کا بند کمرے کا اجلاس بلانا پڑا ۔ اس اجلاس میں عسکری عہدیداروں کو بھی پارلیمنٹ کے سامنے تمام معاملات کی وضاحت پیش کرنا پڑی۔

اسی اثنا میں سولہ مئی کو امریکی سینیٹر جان کیری پاکستان پہنچے اور دو مئی کے واقعے سے بھڑکنے والے آگ پر پانی ڈالنے کی کوشش کی ۔انہوں نے پاکستانی عسکری اور سیاسی قائدین سے ملاقاتیں کیں اور یقین دہانی کرائی کہ امریکا پاکستان کی خود مختاری کا احترام ہے لیکن اگلے ہی روز نیٹو ہیلی کاپٹرز کی پاکستانی چوکی پر شیلنگ سے پاک فوج کے دو جوان زخمی ہو گئے اور جان کیری کے دورہ پاکستان پر پھر دھویں کے بادل منڈلانے لگے۔

چھبیس مئی کو امریکی فوج کے سربراہ ایڈمرل مائیک مولن پاکستان پہنچے جبکہ اس کے اگلے ہی روز 26 رکنی وفد کے ہمراہ امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن نے پاکستان کادورہ کیا ۔ دونوں رہنماؤں نے الگ الگ عسکری اور سیاسی قائدین سے ملاقاتیں کیں جن میں ہائی ویلیو ٹارگٹس کے خلاف مشترکہ کارروائی پر اتفاق کیا گیا اور غلط فہمیاں دور کرنے سے متعلق بات چیت کی گئی ۔

بیس ستمبرکو کابل میں ایک خود کش حملے میں افغانستان کی امن کونسل کے چیئرمین برہان الدین ربانی کے قتل نے پاک امریکا تعلقات میں غلط فہمیوں کی نئی شروعات کی ۔ قتل کی فوری طور پر ذمہ داری پاکستان میں موجود طالبان پر ڈالی گئی۔ قتل کے اگلے ہی روز امریکی وزیر دفاع لیون پنیٹا نے پاکستان پر واضح کیا کہ حقانی نیٹ ورک کے خلاف کارروائی کے بغیر کوئی دوسرا آپشن موجود نہیں ، پاکستانی انٹیلی جنس ایجنسی آئی ایس آئی کو حقانی نیٹ ورک سے تمام رشتے توڑنا ہوں گے جبکہ دوسری جانب پاکستان کے وزیر داخلہ نے بیان دیا کہ حقانی نیٹ ورک کا پاکستان میں کوئی وجود نہیں ، اگر امریکا کے پاس کوئی ثبوت ہیں تو فراہم کرے ، کارروائی ہم خود کریں گے ۔

حقانی نیٹ ورک پر بحث گرم تھی کہ بیس اکتوبر کو ہیلری کلنٹن پھر دو روزہ دورے پر پاکستان پہنچیں۔ ان کے وفد میں سی آئی اے کے ڈائریکٹر ڈیوڈ پیٹریاس ، نمائندہ خصوصی برائے پاکستان افغانستان مارک گراسمین ، امریکی فوج کے سربراہ مارٹن ڈیمپسی اور نائب وزیر دفاع بھی شامل تھے ۔ اس دورے کو انتہائی اہمیت کا حامل قرار دیا گیا کیونکہ فوجی اور عسکری قیادت کے ساتھ ملاقاتوں میں غلط فہمیاں دور کرنے کی بات کی گئی لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہیلری نے حقانی نیٹ ورک کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کرتے ہوئے پاکستان پر واضح کیا کہ وہ صاف صاف بتائے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں عالمی برادری کا ساتھ دے گا یا دہشت گردوں کا ۔ اس پر پاکستان نے ایک مرتبہ پھر کہا کہ امریکا کو سرحد پار سے کارروائیاں بند کرنا ہوں گی۔

ریمنڈ ڈیوس ،اسامہ کی ہلاکت برہان الدین قتل ،حقانی نیٹ ورک کے خلاف کارروائی کا مطالبہ و دیگر مسائل کے باعث پاک امریکا تعلقات پر جمی دھول ابھی پوری طرف صاف بھی نہ ہوئی تھی کہ 26 نومبر کی رات نیٹو کے جنگی طیاروں کی جانب سے مہمند ایجنسی میں واقع سلالہ چیک پوسٹ پر حملہ ہوگیا جس میں پاکستانی فوج کے دو افسران سمیت 26 جوان جاں بحق ہوگئے ۔

اس واقعے نے پاک امریکا تعلقات کو مزید دھندلا دیا ۔ رد عمل کے طور پر نہ صرف پاکستان کے راستے افغانستان جانے والی نیٹو رسد بند کر دی گئی بلکہ امریکا کو پندرہ دنوں کے اندر شمسی بیس بھی خالی کرنا پڑی۔ واقعے کے33 دن بعد آج بھی دونوں ممالک کے درمیان تعلقات معمول پر نہیں آئے اور نیٹو سپلائی بھی تاحل بند ہے ۔

نیٹو حملے کے تناظر میں ہی پاکستان نے افغانستان کیلئے جرمنی میں منعقدہ بون کانفرنس کا بائیکاٹ کیا۔ اگر چہ اس کے لئے دیگر ممالک کی اعلیٰ قیادت نے بار بار پاکستان پر زور دیا لیکن پاکستان نے اس کانفرنس کا بائیکاٹ جاری رکھا ۔

اس تمام تر تناظر میں جمعرات کو امریکی وزارت خارجہ بھی اس بات کا اعتراف کر چکی ہے کہ سال دو ہزار گیارہ پاک امریکا تعلقات کے لئے مشکل ترین سال تھا ۔اس کے ساتھ ہی اس خواہش کا اظہار بھی کیا گیا ہے کہ آئندہ سال پاکستان کے ساتھ اچھے تعلقات ہوں گے لیکن پاکستان کے وزیراعظم سمیت اعلیٰ قیادت اس بات پر زور دے رہی ہے کہ نیٹو سپلائی اور امریکا سے تعلقا ت کا فیصلہ پارلیمنٹ کرے گی۔

XS
SM
MD
LG