رسائی کے لنکس

پاک چین مشترکہ بین الاقوامی تجارت کا آغاز


گوادر بندرگاہ سے چین کا پہلا تجارتی سامان لے جانے کے لیے بحری جہاز تیار ہے۔ 13 نومبر 2016
گوادر بندرگاہ سے چین کا پہلا تجارتی سامان لے جانے کے لیے بحری جہاز تیار ہے۔ 13 نومبر 2016

عہدے داروں کاکہنا ہے کہ ابتدائی 24 میں سے 16 منصوبوں پر تعمیراتی کام ہو رہا ہے جو 2018 تک مکمل ہوجائیں گے اور ان سے مقامی آبادی کے لیے روزگار کے ہزاروں نئے مواقع پیدا ہوئے ہیں۔

پاکستان اور چین نے اس ہفتے پاکستان کی جنوب مغربی بندر گاہ گوادر کے ذریعے بیرون ملک تجارتي سامان بھیجنے کے عمل کا آغاز کیا۔

یہ منصوبہ دونوں قریبی ہمسایہ ملکوں کے درمیان اربوں ڈالر مالیت کے اقتصادی معاہدے کا ایک حصہ ہے۔

چھالیس ارب ڈالر کی چینی سرمایہ کاری سے پاک چین اقتصادی راہداری کے تحت سٹرکیں، ریلوے، مواصلات اور بجلی کے منصوبے تعمیر کیے جا رہے ہیں۔

گہرے پانیوں کی بندرگاہ گوادر کو چینی سرمائے اور تکنیکی معاونت سے تعمیر کیا جا رہا ہے اور یہ بندرگاہ چین کے علاقے سنکیانگ اور بین الاقوامی منڈیوں کے درمیان ایک اہم دروازے کی حیثیت رکھتی ہے۔

گہرے پانیوں کی بندرگاہ ۔ گوادر
گہرے پانیوں کی بندرگاہ ۔ گوادر

یہ بندرگاہ تجارتی لحاظ سےدنیا کے تین اہم ترین علاقوں کو سہولت فراہم کرتی ہے جن میں تیل کی دولت سے مالا مال مشرق وسطیٰ، وسطی ایشیا اور جنوبی ایشیا شامل ہیں۔

یہ بندرگاہ خلیج فارس اور آبنائے ہرمز کے قریب واقع ہے۔

اتوار کے روز پاکستانی اور چینی عہدے دار چین سے ٹرکوں کے پہلے قافلے کا خیر مقدم کرنے کے لیے گوادر میں جمع ہوئے۔

ان ٹرکوں نے گوادر کی بندرگاہ تک پہنچنے کے لیے تین ہزار کلومیٹر کا طویل فاصلہ طے کیا تھا اور وہ درہ خنجراب سے پاکستان میں داخل ہوئے جو دنیا کی سب سے بلند سرحدی گذرگاہ ہے۔

اس موقع پر چین کے سفیر نے کہا کہ یہ سفر مقامی سڑکوں کے قابل عمل ہونے اور مختلف راستوں پر مبنی ایک راہداری کے تصور کی حقیقت کو ثابت کرتا ہے۔

پاکستانی راہنماؤں کو توقع ہے کہ یہ راہداری خطے کے اربوں لوگوں کے لیے ترقی اور خوش حالی لائے گی۔

وزیر اعظم نواز شریف گوادر سے بین الاقوامی تجارت کا افتتاحی تقریب میں۔ 13 نومبر 2016
وزیر اعظم نواز شریف گوادر سے بین الاقوامی تجارت کا افتتاحی تقریب میں۔ 13 نومبر 2016

پاکستان کے وزیر اعظم نوازشریف نے گوادر میں ہونے والی تقریب میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان اقتصادی لحاظ سے اہم تین علاقوں جنوبی ایشیا، چین اور وسطی ایشیا کے سنگم پر واقع ہے۔ سی پیک ان خطوں کو اقتصادی طور پر ایک دوسرے سے مربوط کرنے کا موقع فراہم کرے گا جس سے علاقے کے لوگوں کے لیے نئے موقع پیدا ہوں گے اور دنیا بھر سے سرمایہ کاری آئے گی۔

پاکستان کو حکومت مخالف جماعتوں کی جانب سے اس تنقید کا سامنا ہے کہ اقتصادی راہداری سے منسلک منصوبوں اور چینی سرمایہ کاری کا ایک بڑا حصہ پنجاب کی جانب منتقل کر دیا گیا ہے۔

حکومتی عہدے دار ان الزامات کی سختی سے ترديد کرتے ہیں۔

سیکیورٹی اور سیاسی خدشات کے باوجود چینی اور پاکستانی عہدے دار کہتے ہیں کہ سی پیک سے منسلک منصوبے عمل درآمد کے مرحلے میں داخل ہو چکے ہیں اور ان میں تیزی سے پیش رفت ہو رہی ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ابتدائی 24 میں سے 16 منصوبوں پر تعمیراتی کام ہو رہا ہے جو 2018 تک مکمل ہوجائیں گے اور ان سے مقامی آبادی کے لیے روزگار کے ہزاروں نئے مواقع پیدا ہوئے ہیں۔

گوادر کا ایک منظر۔ 13 نومبر 2016
گوادر کا ایک منظر۔ 13 نومبر 2016

اسلام آباد میں قائم نیشنل یونیورسٹی آف سائنسز کے ایک ماہر اقتصاديات اطہر مقصود احمد کہتے ہیں کہ پاکستان میں سی پیک کے بغیر بھی ترقی کی علامتیں پہلے سے موجود ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ سی پیک کی مدد سے ترقی کی متوقع شرح افزائش کچھ بہت زیادہ نہیں ہے۔ یہ رفتار ہم ماضی میں بھی حاصل کر چکے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اقتصادی راہداری پر ہونے والے زیادہ تر بحث مباحثے قیاس آرائیوں پر مبنی ہیں۔ سی پیک سے پاکستان کو ملنے والے حصے کے متعلق حتمی طور پر کچھ کہنا ممکن نہیں ہے کیونکہ اس سلسلے کی جو دستاویزات متعلقہ پاکستانی اور چینی وزارتوں کے پاس ہیں وہ اس بارے میں معلومات فراہم نہیں کرتیں۔

XS
SM
MD
LG