رسائی کے لنکس

اٹھارویں ترمیم پر امریکی ماہرین کا ردعمل


پاکستانی صدر آصف علی زرداری نے اس تاریخی بل پر دستخط کیے
پاکستانی صدر آصف علی زرداری نے اس تاریخی بل پر دستخط کیے

پاکستان میں آئین میں کی جانے والی اٹھارویں ترمیم کو ملک میں جمہوری عمل مضبوط بنانے کے سلسلے میں جہاں ایک طرف اہم قدم کے طور پر دیکھا جارہا ہے وہیں بعض حلقے اس کی کچھ شقوں کو جمہوری اصولوں کے منافی بھی قرار دے رہے ہیں۔ اٹھارویں ترمیم پر پاکستان میں بحث کا سلسلہ تو جاری ہے ہی لیکن یہاں واشنگٹن میں بھی ماہرین پاکستانی آئین ٕمیں ہونے والی اس ترمیم اور اسکے جمہوریت پر ممکنہ اثرات پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔

پاکستانی صدر آصف علی زرداری نے اس تاریخی بل پر دستخط کیے۔

فوجی حکمران ضیاء الحق نے اپنے اقتدار کو مضبوط بنانے کے لیے 1980 ءمیں یہ اختیارات حاصل کیے تھے ، جن میں منتخب اسمبلی کو توڑنا، ججوں کی تعیناتی اور ملک کی مسلح افواج کے سربراہ کا انتخاب شامل ہیں۔ یہ اختیارات اب منتخب اسمبلی اور وزیرِ اعظم کے دفتر کو منتقل ہو گئے ہیں۔

موجودہ دہائی میں ایک اور فوجی حکمران پرویز مشرف نے یہ اختیارات اپنے مفاد کے لیے استعمال کیے۔ مڈل ایسٹ انسٹی ٹیوٹ کے مارون وائن بام کہتے ہیں کہ یہ ایک تاریخی اقدام ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت کو یہ کرنا ہی تھا۔ انہوں نے پہلے ہی خود سے یہ وعدہ کر لیا تھا کہ وہ ایسا کریں گے۔ ملک میں اس سوچ پر اتفاق تھا کہ 1973 ءکے آئین کی طرف واپس آنے کا مطلب جمہوریت کی طرف واپس آنا ہو گا۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے دونوں حکمران ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو، ملٹری حکوت کے خلاف کھڑے ہوئے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے اتفاقِ رائے سے ملک کو آئین دیا اور بے نظیر بھٹو نے مسلم لیگ ن اور دیگر اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ مل کر میثاقِ جمہوریت پر دستخط کیے، جس کے باعث ان ترامیم پر اتفاق ہو سکا۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ ستم ظریفی ہے کہ ان اصلاحات پر دستخط صدر آصف علی زرداری نے کیے، جو اب سے پہلے اپنی مرحوم بیوی بے نظیر بھٹو کے دورِ حکومت میں کرپشن کرنے کے الزامات کی وجہ سے جانے جاتے ہیں۔

مارون وائن بام کہتے ہیں کہ ترمیم صدر زرداری کو یہ حق دیتی ہے کہ وہ اپنی پارٹی کے چیف رہیں اور اس وجہ سے پاکستانی سیاست میں صدر زرداری کا اثر قائم رہے گا۔

ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے اپنے لیے مکمل مدت صدارت یقینی کر لی ہے۔ اور اگر وہاں ایک مڈ ٹرم الیکشن ہوتا ہے تو بھی وہ صدر ہوں گے۔ تو ان کی سیاسی جماعت کا مستقبل جو بھی ہو صدارت انہی کے پاس رہے گی۔ جسے وہ کسی قسم کے سیاسی لین دین کے لیے استعمال کر سکیں گے۔

ڈاکٹر نثار چوہدری واشنگٹن میں مقیم پاکستانی تجزیہ کار ہیں وہ کہتے ہیں اس ترمیم کی تیاری میں مختلف سیاسی جماعتوں میں جو اتفاق دیکھنے میں آیا وہ بہت مثبت اشارہ ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ پاکستان کی بقا مستحکم جمہوریت میں ہے۔ ہمارے سیاستدانوں نے اتفاقِ رائے سے یہ قدم اٹھایا ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ زمین پر یہ ان چیزوں کو کیسے منتقل کیا جاتا ہے۔ یہ زیادہ اہم ہے۔ اوریہ سیاستدانوں کا امتحان ہو کہ وہ کتنے پختہ اور سمجھدار ہیں۔

سیاسی استحکام تو آ رہا ہے مگر پاکستانی عوام پر غربت، بے روزگاری، مہنگائی اور بجلی کی بندش کا بوجھ بڑھتا جا رہا ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ آئینی اصلاحات پاکستان کی کمزور جمہوریت کے لیے فائدہ مند ثابت ہوں گی۔ مگر اس کا فائدہ عوام تک پہچانے کے لیے سیاست دانوں کو اب ان مسائل کے حل کے لیے مل کر کام کرنا ہو گا جن کا پاکستانی عوام کو روزمرہ زندگی میں سامنا ہے۔

XS
SM
MD
LG