رسائی کے لنکس

مفاہمتی عمل کی حمایت پر بات چیت کے لیے کرزئی کی پاکستان آمد


وزیراعظم نے اپریل میں پاکستان کی اعلیٰ عسکری قیادت کے ہمراہ کابل کا دورہ کیا تھا
وزیراعظم نے اپریل میں پاکستان کی اعلیٰ عسکری قیادت کے ہمراہ کابل کا دورہ کیا تھا

افغان صدر حامد کرزئی طالبان سے مفاہمت اور پاکستان کے ساتھ دوطرفہ تعلقات پر بات چیت کے لیے جمعہ کو اسلام آباد پہنچے ہیں جہاں وہ سیاسی رہنماؤں کے علاوہ اعلیٰ فوجی قیادت سے بھی ملاقاتیں کریں گے۔

صدر کرزئی کے ہمراہ اُن کا 80 رکنی وفد بھی پاکستان آیا ہے جس میں افغان وزیر خارجہ زالمے رسول اور اعلیٰ امن کونسل کے سربراہ پروفیسر برہان الدین ربانی بھی شامل ہیں۔

پاکستانی اور افغان حکام کا کہنا ہے کہ افغان صدر کرزئی کا دورہ ہمسایہ ملکوں کے درمیان تعلقات کو مضبوط بنانے کے لیے باہمی رابطوں میں اضافے کی ایک کڑی ہے اور اس کا بنیادی مقصد طالبان عسکریت پسندوں سے مفاہمت کی افغان کوششوں میں پاکستان کے تعاون کا حصول ہے۔

توقع ہے کہ ہفتے کو پاکستانی قائدین کے ساتھ بات چیت کے بعد افغان صدر ذرائع ابلاغ کو اس کی تفصیلات اور اس میں لیے گئے فیصلوں سے آگاہ کریں گے۔

افغان وفد کے اراکین کی جمعہ کو ہونے والی ملاقاتوں میں جمعیت علماء اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن اور پروفیسر برہان الدین ربانی کی بات چیت نمایاں رہی۔

مولانا فضل الرحمن پروفیسر برہان الدین کے ہمراہ گفتگو کرتے ہوئے
مولانا فضل الرحمن پروفیسر برہان الدین کے ہمراہ گفتگو کرتے ہوئے

ملاقات کے بعد ذرائع ابلاغ سے گفتگو کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمن نے بتایا کہ سابق افغان صدر نے اُن سے افغانستان میں جاری مفاہمت کے عمل کی حمایت کی درخواست کی۔ مولانا فضل الرحمن کا کہنا تھا کہ اُنھوں نے افغان رہنما کو اپنی جماعت کے تعاون کا یقین دلایا ہے۔

لیکن اُن کے بقول اُن کی جماعت تنہا شاید کوئی موثر کردار ادا نا کر سکے اس لیے تمام متعلقہ قوتوں بشمول عسکری قیادت کو ایک جامع حکمت عملی پر متفق ہونے کی ضرورت ہوگی۔

مفاہمتی عمل کی حمایت کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ ’’جب اللہ تعالیٰ نے صلح کو خیر کہا ہے تو ہم اس موقع کا ضرور فائدہ اُٹھائیں گے اور یہی ہماری کوشش ہوگی کہ افغانستان اور پاکستان میں جو جنگ کی صورت حال ہے اُس کو امن میں تبدیل کرنے میں اپنا کردار ادا کر سکیں۔‘‘

اُنھوں نے کہا کہ بین الاقوامی افواج کی افغانستان میں موجودگی اُس وقت ہی ختم ہو سکتی ہے جب ملک کی داخلی سلامتی کی صورت حال مستحکم ہو کیوں کہ مخالف گروہوں میں لڑائی عالمی قوتوں کو مداخلت کا جواز فراہم کرتا ہے۔

”افغان بحیثیت قوم 30، 40 سالوں سے جس مشکل میں ہے اور اُن کی نسل در نسل حالت جنگ میں پیدا ہوتی ہے ، جوان ہوتی ہے اور بوڑھی ہو جاتی ہے، کیا یہ قوم قابل رحم نہیں ہے کہ اُن کو بھی اور ان کی آنے والی نسلوں کو بھی ایک پرامن مستقبل حوالے کیا جائے۔“

پروفیسر برہان الدین ربانی کا کہنا تھا کہ مفاہمتی عمل کے سلسلے میں پیش رفت کا جائزہ لینے کے لیے مجوزہ مشترکہ پاک افغان کمیشن کی تشکیل میں پیش رفت ہوئی ہے اور ’’ہم اس لیے آئے ہیں تاکہ اس کمیشن کا باضابطہ اعلان ہو جائے۔‘‘

گزشتہ شب سرکاری ٹیلی ویژن سے خصوصی گفتگو میں اسلام آباد میں افغان سفیر محمد عمر داؤدزئی کا کہنا تھا کہ آئندہ ایک یا دو سال خطے کی سلامتی کے لیے انتہائی اہم ہیں۔ داؤدزئی نے کہا کہ اگر ہم افغانستان میں امن و مفاہمت کا عمل شروع کرنے جا رہے ہیں تو ہمیں پاکستان کی حمایت درکار ہوگی۔

پاکستان پر زور دیا جا رہا ہے کہ وہ عسکریت پسندوں سے مصالحت کے عمل میں افغان حکومت کی معاونت کرے کیوں کہ پاکستان اُن چند ملکوں میں سے ایک تھا جس نے کابل میں طالبان کی حکومت کو تسلیم کیا تھا جب کہ طالبان تحریک کے وجود میں آنے میں مبینہ طور پر پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی نے اہم کردار ادا کیا۔

اپریل میں وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے دورہ کابل میں دونوں ملکوں کی قیادت نے قیام امن کی کوششوں میں تیزی لانے اور مفاہمتی عمل میں پیش رفت کا جائزہ لینے کے لیے ایک مشترکہ کمیشن تشکیل دینے کا فیصلہ کیا تھا جس کا اعلان صدر کرزئی کے دورے کے دوران اسلام آباد میں ہو رہا ہے۔

صدر کرزئی یہ دورہ ایک ایسے وقت کر رہے ہیں جب پاکستان نے حال ہی میں نیٹو اور افغان سکیورٹی فورسز پر الزام لگایا ہے کہ اپنے علاقے میں عسکریت پسندوں کے خلاف اُن کی غیر موثر کارروائی کی وجہ سے جنگجو سرحد پار پاکستانی اہداف ہر ہلاکت خیز حملے کر رہے ہیں۔ اسلام آباد میں امریکی سفارت خانے نے بعض ذرائع ابلاغ کی ان خبروں کی تردید کی ہے جن کے مطابق اتحادی افواج نے یکم جون کو پاکستان کے سرحدی ضلع دیر بالا میں سکیورٹی فورسز کی چوکی پر مہلک حملہ کرنے والے شدت پسندوں کی مدد کی تھی۔

XS
SM
MD
LG