رسائی کے لنکس

افغانستان میں سلامتی کی صورتحال کے پاکستان پر ممکنہ اثرات پر غور


فائل فوٹو
فائل فوٹو

فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف نے جمعہ کو وزیراعظم نواز شریف سے ملاقات کی، جس میں ملک کی اندرونی اور علاقائی سلامتی کی صورت حال پر تبادلہ خیال کیا گیا۔

پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت نے پڑوسی ملک افغانستان میں سلامتی کی صورت حال سے متعلق اُمور پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا۔

فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف نے جمعہ کو وزیراعظم نواز شریف سے ملاقات کی، جس میں ملک کی اندرونی اور علاقائی سلامتی کی صورت حال پر تبادلہ خیال کیا گیا۔

سرکاری بیان کے مطابق افغانستان میں سلامتی کی صورت حال اور اس کے پاکستان پر اثرات کے بارے میں بھی غور کیا گیا۔

واضح رہے کہ ایک روز قبل جنرل راحیل شریف کی زیرقیادت کور کمانڈرز کانفرنس میں بھی افغانستان کی صورت حال خاص طور پر دوطرفہ سرحد کی نگرانی سے متعلق اُمور پر غور کیا گیا۔

افغانستان میں سلامتی کی صورت حال کے بارے میں پاکستان کی قیادت تشویش کا اظہار کرتی رہی ہے۔

اُدھر اطلاعات کے مطابق پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف رواں ماہ کے اواخر میں امریکہ کے سرکاری دورے کے موقع پر صدر براک اوباما سے ملاقات میں افغانستان سے متعلق اُمور پر بھی بات چیت کریں گے۔

توقع ہے کہ وزیراعظم نواز شریف افغانستان میں امن و سلامتی سے متعلق پاکستان کے کردار کے بارے میں بھی امریکہ کے صدر کو آگاہ کریں گے۔

اُدھر پاکستانی وزارت خارجہ کے ترجمان قاضی خلیل اللہ نے کہا ہے کہ جب بھی پاکستان کی قیادت دیگر ممالک کے قائدین سے ملتی ہے تو علاقائی اُمور بشمول افغانستان پر بات چیت کی جاتی ہے۔

اُنھوں نے کہا کہ حال ہی میں نیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر وزیراعظم نواز شریف کی امریکہ کے وزیر خارجہ جان کیری سےملاقات میں بھی افغانستان کے بارے میں بات چیت کی گئی۔

قاضی خلیل اللہ کا کہنا تھا کہ توقع ہے کہ رواں ماہ کے اواخر میں واشنگٹن کے دورے کے موقع پر بھی امریکہ کی قیادت سے اس معاملے پر تبادلہ خیال ہو گا۔

وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ اگر افغان حکومت اور طالبان چاہئیں تو پاکستان اب بھی امن و مصالحت میں کردار ادا کر سکتا ہے۔

افغان حکومت اور طالبان کے درمیان پہلے براہ راست مذاکرات سات جولائی کو پاکستان میں ہی ہوئے جن میں امریکہ اور چین کے نمائندے بھی شریک تھے۔

افغانستان کی حکومت کے نمائندوں اور طالبان کے درمیان براہ راست مذاکرات کا دوسرا دور بھی جولائی کے اواخر میں پاکستان میں ہونا تھا لیکن طالبان کے سربراہ ملا عمر کے انتقال کی خبر منظر عام پر آنے کی وجہ سے یہ عمل معطل کر دیا گیا تھا۔ لیکن ملا اختر منصور کے سربراہ بننے کے بعد افغان طالبان کے باہمی اختلافات اور اس دوران کابل سمیت افغانستان میں مہلک بم حملوں کی وجہ سے افغانستان کی حکومت بھی بات چیت کے عمل سے پیچھے ہٹ گئی۔

افغانستان میں حالیہ مہینوں میں طالبان کے حملوں میں اضافہ ہوا ہے اور حال ہی میں طالبان نے افغانستان کے شمالی شہر قندوز پر قبضہ کر لیا تھا۔ لیکن رواں ہفتے ہی افغان حکومت نے اعلان کیا کہ قندوز پر سرکاری فورسز کا مکمل کنٹرول بحال ہو چکا ہے۔

یاد رہے کہ رواں ہفتے ہی پاکستانی فوج کے ترجمان نے ایک بیان میں افغان میڈیا کے بعض حصوں میں سامنے آنے والی اُن خبروں کی سختی سے تردید کی تھی جن میں کہا گیا تھا کہ قندوز حملے میں پاکستانی سکیورٹی عہدیدار ملوث ہیں۔

فوج کے شعبہ تعلقات عامہ ’آئی ایس پی آر‘ کے بیان کے مطابق افغان عہدیداروں کی طرف سے لگائے جانے والے الزامات مکمل طور پر بے بنیاد، غیر ضروری اور نقصان دہ ہیں۔

بیان میں کہا گیا کہ پاکستان پہلے ہی افغانوں کی زیر قیادت امن و مصالحت کے عمل کی حمایت کرتا رہا ہے اور قندوز پر حملے کی مذمت بھی کی گئی۔ فوج کے ترجمان کی طرف سے کہا گیا کہ اس صورت حال میں الزام تراشی ناقابل فہم ہے۔

فوج کے ترجمان کی طرف سے کہا گیا تھا کہ اس طرح کی الزامات غیر ذمہ دارانہ رویہ ہے اور حقیقی خطرے سے نمٹنے کے لیے ضروری ہے کہ ایسے رویے کو نا دہرایا جائے۔

XS
SM
MD
LG