رسائی کے لنکس

پاکستان افغان طالبان قیدیوں کو رہا کرنے پر ’رضامند‘


立院会场内主席台前一片混乱 (美国之音申华拍摄)
立院会场内主席台前一片混乱 (美国之音申华拍摄)

اس پیش رفت کا اعلان افغانستان کی اعلٰی امن کونسل کے وفد کی پاکستانی سیاسی و فوجی قیادت کے ساتھ بات چیت کے بعد کیا گیا ہے۔

افغان رہنماؤں نے کہا ہے کہ پاکستان نے زیر حراست افغان طالبان قیدیوں کو رہا کرنے اور افغانستان میں جنگ کے خاتمے کے لیے امن بات چیت میں شرکت پر آمادہ کرنے کے لیے طالبان کو ایک مضبوط پیغام دینے کا وعدہ کیا ہے۔

اس پیش رفت کا اعلان افغانستان کی اعلٰی امن کونسل کے وفد کی پاکستانی سیاسی و فوجی قیادت کے ساتھ بات چیت کے بعد کیا گیا ہے۔

افغان وفد کونسل چیئرمین صلاح الدین ربانی کی قیادت میں اسلام آباد میں گزشتہ تین روز سے پاکستانی حکام کے ساتھ بات چیت کر رہا ہے اور سفارتی ذرائع نے زیر بحث تقریباً تمام اختلافی امور پر مثبت پیش رفت کا دعویٰ کیا ہے۔

مہمان وفد نے بات چیت میں پاکستان سے درخواست کی وہ امن عمل میں دلچسپی رکھنے والے طالبان کو محفوظ راستہ دینے اور دیگر باغی گروپوں بشمول ’’کوئٹہ شوریٰ‘‘ کی قیادت کو مذاکرات پر آمادہ کرنے میں افغانستان کی مدد کرے۔

افغان امن کونسل کے رکن عبدالحمید مبارز بدھ کو ہونے والے مذاکرات کے بعد وائس آف امریکہ کو بتایا پاکستان نے اپنے ہاں قید طالبان کو فوری طور پر رہا کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے تاہم پاکستانی حکام نے اُنھیں نے ان قیدیوں کی تعداد بتانے سے گریز کیا۔

افغان امن کونسل کے سینیئر رکن عبدالحمید مبارز
افغان امن کونسل کے سینیئر رکن عبدالحمید مبارز


اُنھوں نے کہا کہ طالبان کی رہائی پر پاکستان کی آمادگی ایک خوش آئندہ اور مثبت پیش رفت ہے جو افغانستان میں امن ومفاہمت کے عمل کو تقویت بخشے گی۔

’’طالبان قیدیوں کی رہائی کے بعد ان کی وطن واپسی افغانوں کے لیے باعث مسرت ہے۔ ان کی واپسی سے ہمیں اُمید ہے کہ دیگر عسکریت پسندوں کو بھی امن مذاکرات میں شرکت کرنے پر راغب کرنے کی کوششوں میں مدد ملے گی۔‘‘

افغان سفارتی ذرائع نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ان کے خیال میں پاکستان میں 30 سے 40 افغان طالبان رہنما قید ہیں مگر بات چیت میں پاکستانی حکام نے بتایا ہے کہ ان کی فہرست میں یہ تعداد 100 سے زائد ہے.

افغان وفد کے رکن عبدالحمید مبارز نے کہا کہ امن کونسل کی کوشش ہے کہ طالبان اپریل 2014ء میں افغانستان میں ہونے والے صدارتی انتخابات میں نا صرف حصہ لیں بلکہ اپنے امیدوار بھی سامنے لائیں تاکہ وہ قومی دھارے میں شامل ہوکر ایک بار پھر معمول کی زندگی گزاریں۔

افغان امن کونسل کے سربراہ صلاح الدین نے پاکستانی سیاسی و فوجی قیادت کے ساتھ باضابطہ بات چیت کے علاوہ ملک کی دو بڑی مذہبی جماعتوں، جمعیت علما اسلام اور جماعت اسلامی کے قائدین سے بھی ملاقاتیں کیں۔

جماعت اسلامی کے سابق امیر قاضی حسین کہتے ہیں کہ اُنھوں نے افغان امن کونسل کے وفد کے موقف میں ماضی کے مقابلے میں زیادہ لچک محسوس کی جو ایک خوش آئند بات ہے۔

افغان وفد نے اپنا دورہ مکمل کر کے بدھ کو کابل واپس جانا تھا مگر مشترکہ اعلامیے کی تیاری میں تاخیر کے باعث اب ان کی وطن واپسی جمعرات کو ہو گی۔

افغان سفارتی ذرائع نے بتایا ہے کہ مذاکرات میں یہ درخواست بھی کی گئی ہے کہ افغانستان سے بین الاقوامی افواج کے انخلاء کے بعد مستقبل میں وہاں سیاسی استحکام کے لیے نا صرف پاکستان اپنے ہاں کی مذہبی قوتوں بلکہ مسلمان ملکوں کی حمایت حاصل کرنے کی مہم میں بھی افغانوں کا ساتھ دے۔

افغان رہنماؤں کا کہنا ہے کہ اس وقت طالبان لڑائی کی وجہ ملک میں غیر ملکی افواج کی موجودگی بتاتے ہیں مگر اتحادی فوجیوں کے انخلاء کے بعد یہ جواز ختم ہوجانا چاہیئے اور اس پر طالبان کو راضی کرنے میں اسلامی قوتیں مددگار ثابت ہو سکتی ہیں۔
XS
SM
MD
LG