رسائی کے لنکس

دہشت گردی کے خلاف اقدامات کے لیے کل جماعتی کانفرنس کی تیاریاں


(فائل فوٹو)
(فائل فوٹو)

عوامی نیشنل پارٹی کے زیر اہتمام منعقد ہونے والی اس کانفرنس میں 27 سیاسی و مذہبی جماعتوں سمیت سول سوسائٹی اور سپریم کورٹ بار کے نمائندے شرکت کریں گے۔

ملک سے دہشت گردی کے خاتمے اور امن کے قیام کے لیے کل جماعتی کانفرنس جمعرات کو اسلام آباد کے مقامی ہوٹل میں منعقد ہو گی جس کی میزبانی صوبہ خیبر پختونخواہ میں برسر اقتدار جماعت عوامی نیشنل پارٹی کرے گی۔

بدھد کو اے این پی کے رہنما اور صوبائی وزیر اطلاعات میاں افتخار حسین نے اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے بتایا کہ ملک کی تمام قابل ذکر جماعتوں نے کانفرنس میں شرکت کی دعوت قبول کر لی ہے لیکن جماعت اسلامی اور پاکستان تحریک انصاف نے اس میں شرکت سے معذرت کی ہے۔

’’ہم انہیں اب بھی دعوت دیتے ہیں کہ وہ اے پی سی میں شرکت کریں اور اگر کوئی تحفظات ہیں تو کانفرنس میں آکر بیان کریں۔‘‘

میاں افتخار حسین کے مطابق کانفرنس کا بنیادی مقصد امن ہے اسی لیے کوئی ایجنڈا نہیں دیا گیا اور یہ کانفرنس ہی ایجنڈا طے کرے گی اور مستقبل میں امن کے قیام کے لیے روڈ میپ دے گی تاکہ ایک نکتے پر متحد ہو کر طالبان سے مذاکرات کیے جائیں چاہے وہ مذاکرات موجودہ حکومت کرے یا انتخابات کے نتیجے میں آنے والی نئی حکومت کرے۔ ان کا کہنا تھا کہ سب کو سیاست سے بالا تر ہو کر امن کے لیے کی جانی والی کوششوں کا حصہ بننا چاہیئے۔

’’ دہشت گردی کی لہر میں ایسے موقع کم آتے ہیں ہم ایسے موقع پر ان لوگوں سے بھی درخواست کریں گے جو مین سٹیک ہولڈر جنہیں دہشت گرد کہیں
طالبان کہیں ان کو بھی بڑی سنجیدگی سے یہ جو پیشکش قبول کی ہے ایک دفعہ نہیں دو دفعہ قبول کی انہیں سنجیدگی کے ساتھ اپنی مذاکراتی کمیٹی کا اعلان کرنا چاہیئے۔‘‘

میاں افتخار حسین نے کہا کہ امن کا قیام سکیورٹی ایجنسیوں کا کام ہے اور اس میں سر فہرست فوج آتی ہے تو اس قیادت کو بھی اعتماد میں لیا جائے گا تاکہ سرحدوں اور امن کے برقرار رکھنے کے حوالے سے جو بات ہو اس میں ان کی رائے شامل کر کے زیادہ تقویت ملے گی۔

میاں افتخار حسین نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ اگر افغانستان اور قطر میں مذاکرات ہو سکتے ہیں تو پاکستان میں کیوں نہیں ہو سکتے۔ پاکستان، افغانستان اور نیٹو امریکہ فریق ہیں اور تینوں فریقین کا مذاکرات میں ہونا ضروری ہے۔

’’دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ جب جب بھی جنگیں ہوئیں ان میں لاکھوں ایسے واقعات ہوئے لیکن ان کے بعد معاملات مذاکرات کے میز پر آئے یہ مذاکرات اس لیے ہوتے ہیں کہ اس تباہی کو مد نظر رکھ کر کیے جاتے ہیں کہ جو تباہی ہوئی وہ ضرورت سے زیادہ ہوئی اور مذید تباہی نہیں ہونی چاہیئے‘‘۔

میاں افتخار حسین کے بقول فوج کئی مرتبہ طالبان سے مذاکرات کر چکی ہے مالا کنڈ ڈویژن میں جب طالبان سے مذاکرات کیے تو فوج وہاں موجود تھی فوج اپنی سوچ رکھتی ہےجب کہ ہم سیاسی قائدین مل کر ایک بات طے کریں گےتو پھر فوج سے رابطہ کیا جائے گا۔

اے این پی کے مرکزی ترجمان سینیٹر زاہد خان نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اے پی سی میں 27 سیاسی و مذہبی جماعتوں سمیت سول سوسائٹی اور سپریم کورٹ بار کے نمائندے شرکت کریں گے۔

انسداد دہشت گردی کی جنگ میں شرکت کے بعد سے پاکستان میں سکیورٹی اہلکاروں سمیت ہزاروں افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔
XS
SM
MD
LG