رسائی کے لنکس

قومی اسمبلی میں انیسویں آئینی ترمیم دوتہائی اکثریت سے منظور


قومی اسمبلی
قومی اسمبلی

پارلیمان نے رواں سال کے اوائل میں 18 اٹھارویں آئینی ترمیم کے تحت 1973 ء کے آئین میں 101 شقوں میں ترمیم کی منظوری دی تھی جن میں سابق فوجی سربراہان مملکت کے دور میں آئین میں کی جانے والی متنازع ترامیم کے خاتمے سمیت اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کی تقرری کا طریقہ کار بھی شامل تھا ۔

قومی اسمبلی نے بدھ کو دو تہائی اکثریت سے انیسویں آئینی ترمیم کی منظوری دے دی جس میں ججوں کی تقرری کے طریقہ کار سمیت سپریم کورٹ کی بیشتر سفارشات کو منظور کیا گیا ہے۔

آئینی اصلاحاتی کمیٹی کی طرف سے مرتب کردہ ترمیم کے مسودے کے حق میں 258ووٹ آئے جب کہ پاکستان مسلم لیگ ق سے تعلق رکھنے والی ممبر کشمالہ طارق واحد رکن تھیں جنہوں نے ترمیم کے خلاف ووٹ دیا۔

رواں سال 21 اکتوبر کو سپریم کورٹ نے اٹھارویں ترمیم میں اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کی تقرری کے طریقہ کار کی شق 175 اے کے خلاف دائر درخواست پر اپنے فیصلے میں اس معاملے کو پارلیمنٹ کو دوبارہ بھجواتے ہوئے نظر ثانی کے لیے پارلیمان کو تین ماہ کی مدت دی ۔

رضا ربانی کی سربراہی میں قائم پارلیمان کی اس 26رکنی کمیٹی نے متفقہ طور پر 19ویں ترمیم کی منظوری دی جس میں آئین کی چھ شقوں میں 26 ترامیم تجویز کی گئیں۔ ان میں سے ایک شق میں ججوں کی تعیناتی کے لیے قائم جوڈیشل کمیشن میں ججوں کی تعداد دو سے بڑھا کر چار کر نے کی تجویزتھی جسے منظور کرلیا۔

وزیراعظم گیلانی (فائل فوٹو)
وزیراعظم گیلانی (فائل فوٹو)

وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے قومی اسمبلی سے خطاب میں کہا کہ آئینی کمیٹی اور اراکین پارلیمنٹ نے سیاسی بالغ نظری کا ثبوت دیتے ہوئے 19ویں ترمیم کومنظور کیا ہے اور ان کے بقول اس اقدام سے عدلیہ کو احترام کا پیغام دیا گیا ہے اور اس سے ادارے مضبوط ہوں گے۔

پارلیمان نے رواں سال کے اوائل میں 18 اٹھارویں آئینی ترمیم کے تحت 1973 ء کے آئین میں 101 شقوں میں ترمیم کی منظوری دی تھی جن میں سابق فوجی سربراہان مملکت کے دور میں آئین میں کی جانے والی متنازع ترامیم کے خاتمے سمیت اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کی تقرری کا طریقہ کار بھی شامل تھا ۔ لیکن ان میں سے بعض شقوں بالخصوص ججوں کی تعیناتی سے متعلق شق کو عدالت عظمیٰ میں چیلنج کیا گیا تھااور تقریباً چار ماہ سے زائد عرصے کی سماعت کے دوران دفاع کے وکلاء کی طرف سے اُٹھائے جانے والے اعتراضات کو غور کے لیے پارلیمنٹ میں بھیجنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ممتاز قانون دان اور اصلاحاتی کمیٹی کے رکن سینیٹر ایس ایم ظفر نے کہا” سپریم کورٹ کی بہت سی باتوں کو تسلیم کرلیا گیا ہے۔ باقی ایک جو سپریم کورٹ کی طرف سے یہ اشارہ تھا کہ جوڈیشل کمیشن کی طرف سے کسی جج کے نام کی منظوری کے بعد اگر پارلیمانی کمیٹی اسے نامنظور کرے تو یہ نام واپس کمیشن کو بھیجا جائے ، اس واپس بھیجنے کے طریقے کو ہم نے نہیں اپنایا“۔

XS
SM
MD
LG