رسائی کے لنکس

پاکستان افرادی قوت کی عالمی درجہ بندی میں 113 نمبر پر


ماہر تعلیم ڈاکٹر اے ایچ نیئر کہتے ہیں کہ جب تک حکومتیں آئین میں درج شہریوں کے تعلیمی حق کو پورا کرنے کے لیے سرتوڑ کوششیں نہیں کرے گی اس وقت تک صورتحال میں بہتری مشکل ہے۔

عالمی اقتصادی فورم کی طرف سے افرادی قوت انڈیکس سے متعلق جاری کردہ ایک تازہ رپورٹ میں بتایا ہے کہ پاکستان اس حوالے سے دنیا کے 124 ملکوں میں سے 113 نمبر پر ہے جس کی ایک بڑی وجہ تعلیم کے شعبے میں اس کی خراب کارکردگی ہے۔

پاکستان میں تعلیم کا شعبہ اس لحاظ سے حکومتی عدم توجہی کا شکار رہا ہے کہ اس کے لیے سالانہ قومی بجٹ کا صرف دو فیصد ہی مختص کیا جاتا ہے جب کہ ماہرین مجموعی قومی پیداوار کا چار فیصد صرف کرنے پر زور دیتے ہیں۔

اس کے علاوہ ملک میں اسکول جانے کی عمر کے تقریباً اڑھائی کروڑ بچے بھی اسکول نہیں جاتے جس کی وجہ غربت اور اسکولوں تک بہت سے لوگوں کی رسائی نہ ہونا بتائی جاتی ہے۔

موجودہ حکومت کا کہنا ہے کہ وہ اس شعبے پر خاص توجہ مرکوز کیے ہوئے ہے اور اس کے منصوبے کے مطابق آئندہ برسوں میں تعلیمی شعبے کے بجٹ کو بتدریج چار فیصد تک بڑھانا بھی شامل ہے۔

ماہر تعلیم ڈاکٹر اے ایچ نیئر وائس آف امریکہ سے گفتگو میں عالمی اقتصادی فورم کی رپورٹ سے اتفاق کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ جب تک حکومتیں آئین میں درج شہریوں کے تعلیمی حق کو پورا کرنے کے لیے سرتوڑ کوششیں نہیں کرے گی اس وقت تک صورتحال میں بہتری مشکل ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ صرف موجودہ صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے ہی قومی پیداوار کا چار فیصد سے بھی کہیں زیادہ سرمایہ درکار ہے۔

"جو 25 ملین 27 ملین بچے باہر ہیں ان سب کو تعلیم میں داخل کرنے کے واسطے اگر آج ارادہ کریں تو اسے (حکومت) اتنے پیسے چاہیئں ہوں گے کہ جو ایک سال کے محصولات کا دو تہائی بنتے ہیں تو آپ کے پاس تقریباً 1600 ارب 1800 ارب روپے چاہیئں اس کے لیے اور ایک سال میں پاکستان کا جو اپنا تعلیم کا بجٹ ہے وہ چھ سو بلین کے قریب ہوتا ہے۔"

اسکول میں بچوں کے داخلے کی شرح کے علاوہ تعلیمی نظام میں بھی سقم کا تذکرہ کیا جاتا ہے جس کی وجہ سے مختلف نظام تعلیم سے فارغ التحصیل ہونے والے طلبا عملی زندگی میں مسابقت کا بھرپور سامنا کرنے میں کامیاب نہیں ہو پاتے۔

وزیر مملکت برائے تعلیم بلیغ الرحمن کہتے ہیں کہ اس ضمن میں حکومت ایک نظام وضع کر رہی ہے۔

عالمی اقتصادی فورم کی رپورٹ میں بھارت 124 ملکوں میں سے سویں نمبر پر ہے جب کہ ایشیا میں صرف جاپان کی صورتحال قابل ذکر ہے جس کا نمبر پانچواں ہے۔

XS
SM
MD
LG