رسائی کے لنکس

پاکستان میں ہزاروں آثار قدیمہ کو محفوظ کرنا باقی


امریکن انفارمیشن ریسورس سینٹر کے معلوماتی اسٹال پر موجود افراد
امریکن انفارمیشن ریسورس سینٹر کے معلوماتی اسٹال پر موجود افراد

پاکستان کے محکمہ آثار قدیمہ کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر فضل داد کاکڑ کا کہنا ہے کہ ملک میں موجود ہزاروں سال پرانے تاریخی ورثے کی 403 باقیات کو محفوظ کیا جا چکا ہے، لیکن ان کے بقول اب بھی لگ بھگ 7,000 ایسے تاریخی مقامات اور کھنڈارات ہیں جن کی کھدائی کر کے اُنھیں محفوظ کرنا باقی ہے۔

اُنھوں نے یہ انکشاف جمعرات کو اسلام آباد میں امریکہ کے تعاون سے پاکستان، افغانستان اور بھارت کے ماہرین آثار قدیمہ کی چار روزہ بین الاقوامی کانفرنس کے افتتاحی اجلاس کے موقع پر کیا۔

فضل داد کاکڑ نے کہا کہ امریکہ کی مالی معاونت سے پاکستان میں آثار قدیمہ کے تحفظ کے کئی منصوبوں پر کام جاری ہے اور اس کانفرنس کے بعد مزید امریکی مالی امداد ملنے کی بھی توقع ہے۔

اس بین الاقوامی کانفرنس کا مقصد علاقائی ملکوں کے مابین ہزاروں سال پرانے ثقافتی ورثے کے تحفظ کے لیے تعاون بڑھانا ہے۔

کانفرنس میں امریکی ماہرین بھی شرکت کر رہے ہیں جن کا کہنا ہے کہ اس اجلاس میں علاقائی ملکوں کے ماہرین کو یہ جاننے کا بھی موقع ملے گا کہ وہ اپنے ہاں ثقافتی ورثے کو محفوظ رکھنے کے لیے کیا اقدامات کر رہے ہیں۔

امریکن انسٹیٹیوٹ آف پاکستان اسٹڈیز کے ڈاکٹر مارک کیناؤر کانفرنس کے منتظمین میں شامل ہیں۔

اُنھوں نے بتایا کہ اجلاس کا مقصد پاکستان، بھارت اور افغانستان کے مابین سرحدوں کی قید سے آزاد ہو کر آثار قدیمہ کے بارے میں تعاون کو فروغ دینا بھی ہے۔

اردو زبان پر عبور رکھنے والے ڈاکٹر مارک نے کہا ’’اس سال ہم نے سوچا کہ صرف پاکستان اور یو ایس (امریکہ) کی بجائے انڈیا اور افغانستان کے لوگوں کو بھی بلائیں گے تاکہ علاقائی سطح پر آرکیالوجی کے بارے میں بات ہو سکے۔ کیوں کہ جو کلچر اور ہسٹری ہے، آج کی سرحدوں سے اس کا کوئی مطلب نہیں ہے، پہلے بارڈر نہیں تھا لوگ آتے جاتے رہتے تھے۔‘‘

کانفرنس میں شریک افغان وفد کے سربراہ عبدالواسع فیروزی نے بتایا کہ افغانستان اور پاکستان کے درمیان ثقافتی شعبے بالخصوص آثار قدیمہ کے تحفظ کے لیے مشترکہ کوششوں کی ضرورت ہے۔

XS
SM
MD
LG