رسائی کے لنکس

بلوچستان: ایرانی مصنوعات کے کاروبار سے وابستہ افراد کی مشکل


ایران سے سامان لاکر فروخت کرنے والے ایک ایسے ہی دکاندار گل محمد نے بتایا کہ اب ان کا کام نہ ہونے کے برابر رہ گیا ہے اور انھیں خدشہ ہے کہ یہ بالکل ہی نہ ختم ہو جائے۔

قدرتی وسائل سے مالا مال لیکن ملک کے پسماندہ ترین صوبے بلوچستان کی لگ بھگ ایک کروڑ آبادی کے ایک بڑے حصے کا ذریعہ معاش ایران اور افغانستان سے قانونی و غیر قانونی تجارت پر ہے لیکن یہ لوگ بھی ان دنوں مشکلات کا شکار دکھائی دیتے ہیں۔

اس صوبے کی ایران کے ساتھ تقریباً 400 کلومیٹر اور افغانستان کے ساتھ تقریباً 1150 کلومیٹر طویل سرحدیں ہیں جہاںسے اشیائے خوردنی کے علاوہ دیگر سامان پٹرول اور ڈیزل لاکر بلوچستان اور پاکستان کے مختلف حصوں میں فروخت کیا جاتا ہے۔

چھوٹے بڑے پیمانے پر اس روزگار سے وابستہ افراد صوبے کے دیگر سرکاری ملازم پیشہ اور محدود زرعی شعبے سے منسلک افراد سے نسبتاً زیادہ آمدن حاصل کر رہے تھے لیکن حالیہ مہینوں میں ان کا کاروبار بھی متاثر ہوا ہے جس کی وجہ تاجروں کے بقول ایران کی کرنسی کی قدر میں اضافہ اور بعض پاکستان میں عائد کیے جانے والے بعض ٹیکسز ہیں۔


ایرانی مصنوعات فروخت کرنے والے دکانداروں کی تنظیم کے ایک رہنما حاجی محمد عالم نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بتایا کہ پہلے ایک مقامی تاجر ایران سے ہر مہینے تقریباً پانچ ٹرک اشیا کے منگوایا کرتا تھا لیکن اب یہ تعداد کم ہو کر ایک ٹرک رہ گئی ہے۔

’’پہلے بیس روپے منافع تھا ابھی پانچ روپے ہے اب اس پانچ روپے میں کرائے والے لوگ کیسے گزارا کریں گے، پھر بجلی مہنگی ہے گیس مہنگی ہے اور اگر مزید ٹیکس ہوگیا تو پھر کاروبار کیسے چلے گا۔‘‘

ایران سے سامان لاکر فروخت کرنے والے ایک ایسے ہی دکاندار گل محمد نے بتایا کہ اب ان کا کام نہ ہونے کے برابر رہ گیا ہے اور انھیں خدشہ ہے کہ یہ بالکل ہی نہ ختم ہو جائے۔

’’ جب کام نہیں ہوگا تو بے روزگار ہو جائیں گے جتنے بھی بندے ہیں، ابھی ہمارے پاس دو تین بندے کام کررہے ہیں ہم اس کو بھی ہم کہیں گے کہ آپ فارغ ہو میں خود ہی کام کر لوں گا۔‘‘

پنجگور سے ڈیزل اور پٹرول لانے والے محمد حسن لہڑی کا کہنا تھا کہ یہاں سے تیل کی مصنوعات والے تقریباً پانچ سو ٹینکر روزانہ چلتے ہیں اور سینکڑوں لوگوں کا روزگار اس سے وابستہ ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ خطرناک کام ہونے کے باوجود بھی وہ یہ کام اس لیے کر رہے ہیں کہ ان کے پاس روزگار کا کوئی ذریعہ نہیں۔

’’ہم مجبور ہیں یہاں کوئی فیکٹری نہیں کوئی اور کاروبار نہیں اس لیے کرنا پڑتا ہے، مجبوری کے تحت، ابھی بچوں کا پیٹ کیسے پالیں، چوری ہم لوگ کر نہیں سکتے اس صوبے میں تو کوئی اور کام ہے نہیں۔‘‘


صوبے میں سرکاری ملازمتوں سے وابستہ افراد کے علاوہ بعض علاقوں میں زراعت بھی لوگوں کو ذریعہ معاش ہے لیکن امن و امان کی خراب صورتحال اور موسمی صورتحال کی وجہ سے یہ لوگ بھی مسلسل پریشانی اور مشکلات سے دوچار دکھائی دیتے ہیں۔

مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ روزگار کے بہتر مواقع مہیا کرکے صوبے کے لوگوں کی روزی کا مناسب بندوبست نہ کیے جانے کی صورت میں بلوچستان کے حالات مزید بگڑنے کا خدشہ ہے۔

صوبائی حکومت یہ کہتی آئی ہے کہ لوگوں کو تعلیم اور صحت کی سہولتیں فراہم کرنے کے علاوہ وہ روزگار کی فراہمی کے لیے بنیادی ڈھانچے پر بھی توجہ دے رہی ہے۔
XS
SM
MD
LG