رسائی کے لنکس

بلوچستان میں خواتین کو حصول تعلیم میں مشکلات کا سامنا


فائل فوٹو
فائل فوٹو

1992ء کے ایک سر وے میں صوبے کے کل 6500 اسکولوں میں سے لڑکیوں کے صرف 500 اسکول تھے جن میں طالبات کی تعداد ایک ہزار سے کچھ ہی زیادہ تھی۔

پاکستان کے قدرتی وسائل سے مالا مال لیکن پسماندہ ترین صوبے بلوچستان میں خواتین اور بچیوں کو قبائلی پابندیوں سمیت متعدد سماجی مشکلات کا سامنا ہے جن میں سے چند ایک کم عمری میں شادی، غیرت کے نام پر قتل اورحصول تعلیم کی حوصلہ شکنی چند ایک ہیں۔

ان مسائل پر گوکہ آواز تو اٹھائی جاتی رہی ہے لیکن اس کی گونج ابھی اتنی توانا نہیں ہے کہ یہ بھرپور توجہ حاصل کر سکے۔ تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ ان مسائل کو خاص طور پر خواتین کے لیے تعلیم کے مناسب اور آسان مواقع فراہم کرنے سے خاصی حد تک حل کیا جا سکتا ہے۔

ملک کے دیگر تین صوبوں کے مقابلے میں رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑے اس جنوب مغربی صوبے کی آبادی تقریباً ایک کر وڑ کے لگ بھگ ہے جس میں خواتین کا تناسب 51 فیصد سے زیادہ ہے۔

لیکن پچاس لاکھ سے زیادہ خواتین کی آبادی میں سے اس وقت صوبے کے مختلف اسکولوں میں حکام کے مطابق تقر یباً ساڑھے تین لاکھ لڑکیاں زیر تعلیم ہیں جن میں صرف چند ہزار ہی دسویں جماعت کا امتحان دینے میں کامیاب ہوتی ہیں اور ان میں اکثریت کا یہ آخری امتحان ہو تا ہے۔

بلوچستان میں لڑکیوں کی تعلیم کے فروغ کے لیے مختلف بین الاقوامی امدادی ادارے کام کر رہے ہیں۔ ان میں خاص طور پر امریکی ادارے "یو ایس ایڈ" کے تعاون سے کام کرنے والی تنظیم "سوسائٹی فار کمیونٹی سٹرینتھننگ اینڈ پروموشن آف ایجوکیشن بلوچستان" کے سربراہ عرفان احمد کا کہنا ہے کہ صوبے میں لڑکیوں کی تعلیم کے ساتھ ساتھ اگر صلاحیتوں میں نکھار پیدا کرنے اور پیشہ وارانہ مہارت سکھانے پر اب توجہ نہیں دی گئی تو اس نقصان کی تلافی مستقبل میں نہیں ہو پائے گی۔

وائس آف امر یکہ سے گفتگو میں اُن کا کہنا تھا کہ 1992 میں کئے گئے ایک سر وے میں صوبے کے 6500 اسکولوں میں سے صرف 500 لڑکیوں کے تھے جن میں صرف ایک ہزار سے کچھ زیادہ لڑکیاں تعلیم حاصل کر رہی تھیں۔

ان کی تنظیم نے لڑکیوں کی تعلیم کے فروغ کے لیے یوایس ایڈ اور دیگر امدادی اداروں کے ساتھ کام کر کے 1800 کے قریب اسکول قائم کر کے صوبائی حکومت کے حوالے کئے جن کی بدولت لڑکیوں کی تعلیم کی شرح بھی بہتر ہوئی۔ ان کے بقول 2014ء میں 12000 طالبات نے دسویں جماعت کے امتحان میں حصہ لیا۔

لیکن عرفان احمد کہتے ہیں کہاب ایک نئی مشکل دیہی علاقوں میں مڈل اور ہائی اسکول نہ ہونے سے آن پڑی ہے۔

’’خاص طور پر بچیوں کے لئے ہمیں مڈل اسکولز کی اشد ضرورت ہے کیونکہ اگر ہم پرائمری اور مڈل کے درمیان دیکھیں تو وہ ہر دس سے بارہ اسکولوں کے اوپر آپ کو ایک مڈل اسکول نظر آئے گا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اسکول ایک پرائمری اسکول سے 30 یا پچاس کلومیٹر کے فاصلے پر بھی ہو سکتا ہے ہماری تو بہت ساری ایسی تحصیلیں ہیں جہاں پر کوئی مڈل اسکول گرلز موجود نہیں ہے۔‘‘

ان کا کہنا تھا کہ ہر تین سے پانچ پرائمروں اسکولوں پر ایک مڈل اسکول ہونا چاہیے لہذا اب اس کی تعداد بڑھانے کی بھی ضرورت ہے۔

اس کے علاوہ ان کے نزدیک اور مسئلہ بھی ہے جس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

"دوسرا یہ ہے کہ اسکولوں کے اندر خواتین اساتذہ اور معیار کو بہتر بنانے کے لیے ایک بڑی تبدیلی کی ضرورت ہے، ہمارے پرائمری اسکول ہیں یہاں سے مرد اساتذہ کو تبدیل کر کے یہاں پر خواتین کو تعینات کیا جائے۔"

عرفان احمد کا کہنا تھا کہ وہ بچے جو تعلیم حاصل کرنے کا پہلا موقع گنوا چکے ہیں ان کے لیے گاؤں کی سطح پر غیر رسمی تعلیم کے ذریعے پڑھنا لکھنا سکھا کر انھیں مڈل کی سطح پر دوبارہ اسکول میں داخل کروایا جانا چاہیئے۔

تاہم انہوں نے کہا کہ صوبے میں غربت کے باعث بھی لوگ اپنی بچیوں کو دور دراز علاقوں میں بھیجنے کی استطاعت نہیں رکھتے اور اس کے لیے ضروری ہے کہ صوبے کے دیہاتوں میں پرائمری اور مڈل سطح کے اسکول قائم کرنے کے لیے صوبائی حکومت کی معاونت کی جائے۔

بلوچستان کے بعض اضلاع میں زیر زمین خزانوں میں سے سونا، تانبہ اور سیسہ جیسی بیش بہا قیمتی دھاتیں نکالی جاتی ہیں لیکن صوبائی حکومت کے ذرائع کا کہنا ہے کہ ان وسائل میں سے صوبے کو بہت کم حصہ دیا جاتا ہے جس کے باعث صوبائی حکومت لڑکیوں کی تعلیم پر اب تک مناسب توجہ نہیں دے پائی ہے۔

رواں سال کے مالی بجٹ میں صوبائی حکومت نے تعلیم کے شعبے کے لیے 42 ارب روپے مختص کیے تھے جس کا 85 فیصد تنخواہوں کی نذر ہو گیا اور بچ جانے والی رقم سے تعلیمی اداروں کے لیے فرنیچر اور کتب بھی خریدی جاتی ہیں۔

XS
SM
MD
LG