رسائی کے لنکس

توہین ادیان کے قوانین میں ’ترمیم‘ کے مطالبات میں اضافہ


ماہرین اور انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ ریاست اپنی ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے اگر توہین ادیان کے جھوٹے الزامات لگانے والوں کے خلاف موثر قانونی کارروائی کرے تو قانون کے غلط استعمال کو بڑی حد تک روکا جا سکتا ہے۔

پاکستان کے صوبہ سندھ کے شہر لاڑکانہ میں ہفتے کی رات ہندو مذہب سے تعلق رکھنے والے ایک شخص کے خلاف قرآنی اوراق جلانے کے الزامات پر مقامی مسلم آبادی کی طرف سے مندر پر حملے کے بعد رہائشیوں کے مطابق اتوار کو بھی حالات بدستور کشیدہ ہیں۔

مقامی ذرائع ابلاغ کے مطابق صوبے کی حکمران جماعت کے کچھ قانون ساز بھی حالات کا جائزہ لینے اور فریقین سے بات چیت کے لیے لاڑکانہ پہنچے جبکہ شہر میں پولیس اور رینجرز کی اضافی نفری تعینات کردی گئی۔

ڈپٹی انسپکٹر جنرل خادم حسین نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں واقعے کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ ’’ایک افواہ تھی تو اس کے بعد کچھ آوارہ اور لوٹ مار والے لوگ جذباتی لوگوں سے مل گئے اور انہوں نے مندر میں فرنیچر اور دھرم شالا کو آگ لگائی ہے۔ ان تمام کی فوٹیج بنی ہے اور ہمیں پتا ہے کہ کون کون سے لوگ تھے۔‘‘

انہوں نے بتایا کہ توہین قرآن کے مبینہ مرتکب شخص کو تحویل میں لیا گیا ہے اور تحقیقات کے بعد ہی اس پر ضرورت پڑی تو مقدمہ درج کیا جائے گا۔

سندھ میں اقلیتی ہندو برادری کی ایک بڑی تعداد آباد ہے اور یہ واقعہ ایک ایسے وقت سامنے آیا جب ایک روز بعد ہی وہ اپنا مذہبی تہوار ہولی منانے جارہے تھے۔

بعض شہریوں کا کہنا تھا کہ لاڑکانہ شہر میں دن بھر بازار بند رہے اور ٹریفک بھی نا ہونے کے برابر تھی۔

امریکی کمیشن برائے مذہبی آزادی کی ایک حالیہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان دنیا کے ایسے ممالک میں سرفہرست ہے جہاں توہین ادیان کے قانون پرعمل درآمد کرنے پر سب سے زیادہ زور دیا جاتا ہے اور مبینہ طور پر اس کے مرتکب افراد کو موت یا قید کی سزاؤں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

رپورٹ کے مطابق پاکستان میں توہین مذہب پر 14 افراد کو سزائے موت اور 19 کو عمرقید کی سزا دی گئی ہے۔

حقوق انسانی کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ توہین ادیان کے قانون کو اکثر ذاتی اور دیگر تنازعات میں فریقین سے بدلہ لینے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ ان کا مطالبہ ہے کہ اس قانون کے غلط استعمال کو روکنے کے لیے اس میں کم از کم ترمیم ضرور ہونی چاہیئے۔

تاہم اسلامی نظریاتی کونسل کے رکن قاری حنیف جالندھری کہتے ہیں کہ توہین ادیان کے مرتکب افراد کی قانون کے تحت سزاؤں سے ہی اس کا غلط استعمال رک سکتا ہے۔

’’جب بھی کوئی ایسا واقعہ ہوتا ہے تو اصل حقائق کی بجائے اس قانون کو زیر بحث لے آتے ہیں۔ اس پر بحث نہیں ہوتی کہ جس نے اس کی خلاف ورزی کی ہے اس کے خلاف کیا کارروائی ہوئی ہے۔ تو دباؤ بڑھ جاتا ہے اور غلط استعمال کی بات کر کے درست استعمال کو بھی روک دیا جاتا ہے۔‘‘

ان کا ماننا تھا کہ اسی وجہ سے لوگ مشتعل ہو کر قانون اپنے ہاتھ میں لے لیتے ہیں۔

انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ توہین ادیان کے جھوٹے الزامات لگانے والوں کے خلاف کارروائی نا ہونے اور انتہا پسندوں کے شدید ردعمل کے خوف کی وجہ سے بھی اس قانون کے غلط استعمال کے رجحان میں اضافہ ہوا ہے۔

انسانی حقوق کی سرگرم کارکن طاہرہ عبداللہ کہتی ہیں کہ ’’وہ مشتعل ہوتے نہیں، انہیں مشتعل کیا جاتا ہے۔ پولیس اور عدالت تو دور وہ پہلے ہی اسے (ملزم) مار دیتے ہیں کیونکہ وہ جھوٹ پر مبنی ہوتا ہے۔ اسے انصاف نہیں کہیے گا۔‘‘

ان کا کہنا تھا کہ مذہبی اقلیتیں ریاست اور معاشرے کی طرف سے تحفظ نا مہیا ہونے کی وجہ سے جھوٹے الزام لگانے والوں کے خلاف کوئی قانونی کارروائی کرنے سے اجتناب کرتے ہیں۔

’’کیا آپ سمجھتے ہیں کہ ہمارے ملک میں اقلیتیں کچھ کرنے کے لائق ہیں، قابل ہیں۔ انہیں کسی ’جوگے‘ چھوڑا ہے۔‘‘

ماہرین اور انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ ریاست اپنی ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے اگر توہین ادیان کے جھوٹے الزامات لگانے والوں کے خلاف موثر قانونی کارروائی کرے تو قانون کے غلط استعمال کو بڑی حد تک روکا جا سکتا ہے۔

تاہم وزیراعظم نواز شریف نے لاڑکانہ کے واقعے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اقلتیوں کا تحفظ ریاست کی ذمہ داری ہے۔ انہوں نے صوبائی حکومت کو ہدایت دی کہ اس بارے میں اقدامات کرے تاکہ مستقبل میں امن و امن کا ایسا کوئی مسئلہ پیدا نا ہو۔
XS
SM
MD
LG