رسائی کے لنکس

گستاخانہ مواد والی ویب سائٹس کے خلاف کارروائی کا حکم


اسلام آباد ہائی کورٹ نے وزارت داخلہ، وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی اور دیگر متعلق اداروں کو ہدایت دی ہے کہ وہ ’’توہین مذہب‘‘ سے متعلق مواد شائع کرنے والی ویب سائٹس کو بند کرنے کے لیے اقدامات کیے جائیں۔

جب کہ عدالت نے حکومت سے کہا کہ بیرون ملک جانے والے پانچ بلاگرز کے خلاف اگر گستاخانہ مواد کی تشہیر سے متعلق ٹھوس شواہد ہیں تو اُنھیں وطن واپس لا کر انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔

لیکن فوری طور پر ان پانچ بلاگرز کے نام سامنے نہیں آئے ہیں۔

سوشل میڈیا پر گستاخانہ مواد کی موجودگی سے متعلق دائر درخواستوں کی لگ بھگ ایک ماہ تک سماعت کے بعد جسٹس شوکت عزیز صدیقی پر مشتمل اسلام آباد ہائی کورٹ کے ایک رکنی بینچ نے جمعہ کو مختصر فیصلہ سنایا۔

عدالت نے وفاقی تحقیقاتی ادارے ’ایف آئی اے‘ کو بھی ہدایت کی وہ اس بارے میں قانون کے مطابق کارروائی کرے۔

جب کہ پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی ’پی ٹی اے‘ سے کہا گیا کہ وہ ایک آگاہی مہم چلائے کہ گستاخانہ مواد کی اشاعت کی قانونی طور پر سزا کیا ہے۔

سوشل میڈیا پر گستاخانہ مواد کا معاملہ رواں سال کے اوائل سے خاصا گرم رہا اور اسے ہٹانے کے لیے حکومت نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ فیس بک سے بھی رابطہ کیا۔

دریں اثنا وفاقی وزیر برائے مذہبی امور سردار محمد یوسف نے جمعرات کی شام اسلام آباد میں صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ ان کی وزارت کو سوشل میڈیا پر گستاخانہ مواد کی موجودگی کے بارے میں 8670 شکایات موصول ہوئی ہیں۔

’’وزارت نے جولائی 2016ء سے گستاخانہ مواد کی نشاندہی اور شکایت کے لیے کام شروع کیا اور اب تک تقریباً چھ سو ستر ویب سائٹس کے خلاف کارروائی ہوئی۔۔۔ پی ٹی اے سے شکایات کے علاوہ وزارت نے ان سائٹس کے مالکان کو براہ راست رابطہ کر کے تقریباً 700 سائٹس یا ان کے لنکس کے بارے رپورٹ کر چکی ہے جن میں سے اب تک 565 ویب سائیٹ بلاک کر دی گئی ہیں۔‘‘

اُنھوں نے بتایا کہ وزارت مذہبی اُمور نے حکومت سے کہا کہ وہ پاکستان ٹیلی کمیونیکشن اتھارٹی ’پی ٹی اے‘ کو اختیار دے کہ وہ متنازع مواد والی ویب سائٹس کو بلاک کر سکے۔

’’یہ سفارش کی گئی ہے کہ گستاخانہ مواد والی ویب سائٹ کو بلاک کرنے کے لیے پی ٹی اے کو جلد سے جلد کلیرنس دی جائے تاکہ ان سائٹس کو فوری طور پر بلاک کیا جائے۔‘‘

پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف بھی متعلق حکام کو یہ ہدایات جاری کر چکے ہیں کہ سماجی رابطوں کی ویب سائٹس یعنی ’سوشل میڈیا‘ پر توہین مذہب پر مبنی مواد تک رسائی بند کرنے کے لیے ہر ممکن اقدامات کیے جائیں ایسا کرنے والوں کو ’’بلاتاخیر کیفر کردار تک پہنچایا جائے‘‘۔

XS
SM
MD
LG