رسائی کے لنکس

پاکستان میں بھٹہ مزدوروں کے استحصال کا سلسلہ جاری


پاکستان میں بھٹہ مزدوروں کے استحصال کا سلسلہ جاری
پاکستان میں بھٹہ مزدوروں کے استحصال کا سلسلہ جاری

وفاقی دارالحکومت اسلام آباد اور اس کے گرد و نواح میں قائم اینٹوں کے چوبیس بھٹوں پر کام کرنے والے ایک ہزار خاندانوں میں تقریبا چھیانوے فیصد افراد جبری مشقّت کر رہے ہیں اور انہیں جنسی اور جسمانی تشدد سمیت مختلف طرح کے استحصال کا سامنا ہے۔

ماہرین کے مطابق پاکستان کی معیشت سے جڑے بعض شعبے ایسے ہیں جہاں قواعد و ضوابط کا موثر اطلاق نہ ہونے کی وجہ سے مزدور نا صرف مضرصحت ماحول میں کام کر رہے ہیں بلکہ ان کے حقوق کا استحصال بھی ہو رہا ہے۔

حال ہی میں اقوام متحدہ کے مالی تعاون سے والنٹیئر سوشل ویلفئر آرگنائزیشن نامی غیر سرکاری تنظیم نے ایک جائزہ مرتب کیا ہے جس کے مطابق وفاقی دارالحکومت اسلام آباد اور اس کے گرد و نواح میں قائم اینٹوں کے چوبیس بھٹوں پر کام کرنے والے ایک ہزار خاندانوں میں تقریباً چھیانوے فیصد افراد جبری مشقّت کر رہے ہیں اور انھیں جنسی اور جسمانی تشدد سمیت مختلف طرح کے استحصال کا سامنا ہے۔

تنظیم کے مطابق یہاں کام کرنے والے افراد کے بنیادی حقوق کی جو خلاف ورزیاں سامنے آئی ہیں اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ملک کے دور دراز علاقوں میں بھٹہ مزدوروں کی حالت اس سے بھی بدتر ہوسکتی ہے۔

وائس آف امریکہ سے انٹرویو میں پاکستان پیپلز پارٹی کی ایک سینئر ممبر شہناز وزیر علی نے اس بات کا اعتراف کیا کہ اینٹوں کے بھٹے پاکستاں کی معیشیت کا ایک ایسا شعبہ ہے جو پوری طرح قواعد و ضوابط کے تابع نہیں اسی لیے یہاں کام کرنے والے افراد کا استحصال ہو رہا ہے۔

’’مجھے تعداد تو پتا نہیں، ہو سکتا ہے جو تعداد آپ بتا رہے ہیں وہ درست ہو لیکن یہ بات درست ہے کہ بھٹوں پر کام کرنے والے مزدوروں کے حقوق محفوظ نہیں‘‘

شہناز وزیر نے کہا کہ پاکستان پیپلز پارٹی جبری مشقت کرنے والے افراد کے حقوق ومفادات کے تحفظ کے لیے کوشاں رہی ہے لیکن ان کے مطابق صورت حال کو بہتر کرنے کے لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ اس ضمن میں قومی اور صوبائی اسمبلیاں نئے اور موثر قوانین وضع کریں۔

بھٹے میں مشقت کرتے ہوئے مزدور
بھٹے میں مشقت کرتے ہوئے مزدور

جائزہ مرتب کرنے والی غیر سرکاری تنظیم کے پروگرام ڈائریکٹر عرفان جلیل نے ایک انٹرویو میں بتایا کہ اینٹوں کے بھٹوں پر جبری مشقت کرنے والے مزدور وہ ہیں جنھوں نے اپنے مالکان سے قرض لے رکھا ہے جسے اتارنے کے لیے پورا خاندان جبری مشقت کرنے پر مجبور ہے۔

’’ہوتا یہ ہے کہ مزدور بھٹہ مالکان سے جو قرض لیتے ہیں اس کی واپسی کا کوئی حساب کتاب نہیں رکھا جاتا جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ خود مزدور ہی نہیں بلکہ اس کے اہل خانہ اور آنے والی نسلیں بھی قرض کی ادائیگی کے لیے جبری مشقت کرتی رہتی ہیں‘‘۔

تنظیم کے عہدیدار کے مطابق سروے سے یہ بات سامنے آئی کہ ستر فیصد سے زیادہ بھٹہ مزدور ایسے تھے جنھوں نے ایک لاکھ سے دو لاکھ تک قرض لے رکھا ہے اور اب وہ اپنی اجرت کے ذریعے دن رات محنت کر کے اس کی ادائیگی کر رہے ہیں۔

عرفان جلیل نے بتایا کہ بھٹوں میں کام کرنے والے مزدوروں میں اکثریت خواتین کی ہے جو سروے کے دوران اگرچے اپنے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کا ذکر کرنے سے خائف تھیں لیکن اس کے باوجود تیرہ فیصد نے اعتراف کیا کہ انھیں جنسی اور جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔

XS
SM
MD
LG