رسائی کے لنکس

کیا پاکستان میں خطاطی کا مستقبل تاریک ہے؟


ہادی علی قُمی
ہادی علی قُمی

پاکستان میں خطاطی کے مستقبل کے بارے میں خطاط ہادی علی قمی کہتے ہیں کہ ایک وقت تھا کہ ہمارے پاس بہترین خطاط ہوا کرتے تھے لیکن لگتا ہے کہ ہم اس ورثہ کو کھورہے ہیں اور ان لوگوں کے ساتھ ان کا طرزِ تحریر بھی قصہء پارینہ بنتا دکھائی دیتا ہے ۔ ان کے بقول نوجوانوں کو اس فن کو محفوظ رکھنے کی ضرورت ہے ۔

پرنٹنگ پریس کے رواج پانے سے قبل کیلی گرافی کئی صدیوں تک خط و کتابت اور علمی ورثہ کو محفوظ رکھنے کے لیے قدیم تہذیبوں کا ایک اہم جز رہی ہے۔ قرآنِ پاک کے عربی زبان میں نزول کی وجہ سے اسلامی فنون و ثقافت میں بھی کیلی گرافی کے آرٹ کو نمایاں مقام حاصل رہا ہے۔ مگر پرنٹنگ پریس کے منظرِعام پر آنے اور جدید ٹیکنالوجی کی نت نئی ایجادات اور زندگی کی مصروفیات نے قلم کی جگہ کی بورڈ کو دے دی جس کے بعد یورپ میں تو کیلی گرافی آرٹ معدوم ہوگیا لیکن اسلامی تہذیب کے ہر عہد میں اس ورثہ کو محفوظ رکھا گیاہے ۔ اسلامی ممالک میں خطاطی کے فن کی ترویج کے لیے باقاعدہ ادارے قائم کے گئے ہیں مگر پاکستان میں خطاط اس فن کے مستقبل کے بارے میں اب پرامید نظر نہیں آتے۔

ہادی علی قُمی گذشتہ 30 برسوں سے کیلی گرافی کے شعبے سے وابستہ ہیں ۔ وہ کراچی میں خانہ فرہنگ ایران میں تقریباً پانچ سال خطاطی کی تعلیم بھی دیتے رہے لیکن نوجوانوں کی عدم دلچسپی کے باعث یہ سلسلہ ختم ہوگیا۔ وہ کہتے ہیں کہ ہاتھ سے لکھی گئی تحریر انسان کی تخلیقی صلاحیتوں کا مظہر ہے کیوں کہ اس میں لکھنے والے کے تمام جذبات و حسیات اور نفسیات کا عنصر شامل ہوتا ہے۔ ہاتھ سے لکھی گئی تحریر ذہن پر نقش ہوتی جاتی ہے جبکہ کی بورڈ کی تحریر کے نقوش جلد مٹ جاتے ہیں۔ ان کے بقول اس کا واحد فائدہ یہ ہے کہ آپ بروقت اپنے تما م مقاصد کو حاصل کرسکتے ہیں یعنی ہزار صفحات پر مشتمل ایک کتاب کو مختصر وقت میں بہترین رسم الخط کے ساتھ ترتیب دیاجاسکتا ہے۔

وقت بچانے کے لیے ٹیکنالوجی سے استفادہ کرنے کے سلسلے میں وہ کہتے ہیں کہ کی بورڈ کی اہمیت سے انھیں انکار نہیں لیکن وہ اس پر مکمل انحصار کے حق میں نہیں۔ وہ کہتے ہیں کی بورڈ کے استعمال نے انسانی سوچ پر گہرے منفی اثرات مرتب کیے ہیں۔ یہاں آرٹ اسکولوں میں آپ کو خطاطی کے شعبے میں سب سے کم طالب علم ملتے ہیں جبکہ ابتدا ہی سے اسکولوں میں اسے لازمی تعلیم کا حصہ ہونا چاہیے ۔ ہمارے استاد کہا کرتے تھے کہ اگر آپ خوش نویس یہاں تک کہ اچھے مصنف بھی بننا چاہتے ہیں تو بار بار لکھتے جائیے اس لیے کہ ذہن میں خیال سے لے کر انسانی جذبات اور قلم کی سرسراہٹ سے لے کر تمام حسیات ہاتھ کے ذریعے استعمال ہورہی ہوتی ہیں۔ یہ سوچ کی تشکیل کا مرحلہ ہوتا ہے اور اس کے ذریعے انسان نظم و ضبط میں ڈھلتا ہے۔

کیا پاکستان میں خطاطی کا مستقبل تاریک ہے؟
کیا پاکستان میں خطاطی کا مستقبل تاریک ہے؟

ہادی علی قمی کے نزدیک خطاطی جیسے اہم ورثہ سے دوری کی وجہ سے نوجوان نظم و ضبط سے عاری ہیں اور بے صبری، ہلچل اور ذہنی انتشار کا شکا ر ہیں۔ ان کے مزاج میں ٹھہراوٴ نہیں۔ ”جب ہم قلم سے لکھتے ہیں تو ہمیں دل کی دھڑکن کی رفتار کو کم رکھنا ہوتا ہے۔ آنکھ شاہین کی نگاہ سے دیکھتی ہے اور ہاتھوں کو نہایت کنٹرول میں رکھنا ہوتا ہے۔ یہ ٹھہراوٴ، یہ نظم و ضبط اور یہ ذہنی و نفسیاتی کنٹرول آج کے نوجونوں میں نہیں۔“

پاکستان میں خطاطی کے مستقبل کے حوالے سے خطاط ہادی علی قمی کہتے ہیں کہ ایک وقت تھا کہ ہمارے پاس بہترین خطاط ہوا کرتے تھے لیکن لگتا ہے کہ ہم اس ورثہ کو کھورہے ہیں اور ان لوگوں کے ساتھ ان کا طرزِ تحریر بھی قصہء پارینہ بنتا دکھائی دیتا ہے ۔ ان کے بقول نوجوانوں کو اس فن کو محفوظ رکھنے کی ضرورت ہے ۔

XS
SM
MD
LG