رسائی کے لنکس

پاکستان میں صحافیوں کو درپیش چیلنجز


پاکستان میں صحافیوں کو درپیش چیلنجز
پاکستان میں صحافیوں کو درپیش چیلنجز

پاکستانی صحافت کے پر خار میدان میں تقریباً 22 برسوں سے موجود اور پاکستان میں آزادی صحافت کی جدو جہد میں ایک جانا پہچانا نام جگنو محسن کا ہے جو آجکل ایک امریکی تھنک ٹینک سے سکالر کے طور پر منسلک ہیں

پاکستان کو گذشتہ کچھ عرصے سے جن مسائل کا سامنا کرناپڑرہاہے اس میں ذرائع ابلاغ کی آزادی کی راہ میں حائل دشواریاں بھی شامل ہیں۔کمیٹی فارپروٹیکشن آف جرنلسٹز نے گذشتہ سال کی اپنی رپورٹ میں پاکستان کو صحافیوں کے لیے خطرناک ترین ممالک کی فہرست میں شامل کیاتھا۔ رپورٹ کے مطابق گذشتہ سال دنیا بھر اپنے فرائض کی بجاآوری کے دوران ہلاک ہونے والے 57 صحافیوں میں سے گیارہ کا تعلق پاکستان سے تھا۔اگرچہ ملک میں دہشت گردی کے واقعات میں کچھ کمی آئی ہے لیکن ابلاغ سے متعلق بین الاقوامی تنظیموں کا کہناہے کہ صحافیوں کے لیے مشکلات اب بھی بدستور موجود ہیں۔

پاکستانی صحافت کے پر خار میدان میں تقریباً 22 برسوں سے موجود اور پاکستان میں آزادی صحافت کی جدو جہد میں ایک جانا پہچانا نام جگنو محسن کا ہے جو آجکل ایک امریکی تھنک ٹینک سے سکالر کے طور پر منسلک ہیں ۔ جگنو کے مطابق پاکستان میں سچ لکھنے کے لیے ایک آزاد ماحول کے پنپنے کے حوالے سے انہیں اتنی مایوسی پہلے کبھی نہیں ہوئی جتنی کہ آج ہے۔

ان کا کہناہے کہ پاکستان میں آزادیء صحافت کو اس وقت سب سے زیادہ خطرہ دہشت گرد تنظیموں سے ہے اور ان ریاستی اداروں سے جو ان تنظیموں کی پشت پناہی کر رہے ہیں ۔

جگنو کہتی ہیں کہ اب پاکستان میں آزادیء صحافت کو سلب کرنے والی طاقتوں کے خلاف مزاحمت کی تمام کوششیں غیر مؤثر ہوچکی ہیں کیونکہ اب صحافیوں پر ہونے والے مظالم کی شنوائی کرنے والا کوئی نہیں ۔

پاکستان میں اس سال اب تک چھ صحافی سچ کو لفظوں میں ڈھالنے کے جرم میں قتل کیئے جاچکے ہیں ۔اس سال مئی میں صحافی سید سلیم شہزاد کےقتل نے ایک مرتبہ پھر پاکستان میں صحافیوں کو درپیش مسائل کو عالمی توجہ کا مرکز بنا دیا ہے ۔جگنو محسن کی رائے میں ایسے واقعات دوسرے صحافیوں کی اپنے پیشے سے دیانت دار ی کے عزم کو چیلنج اور آزادیء صحافت کو متاثر کرتے ہیں ۔

نیو یارک میں کمیٹی فار دا پروٹیکشن آف جرنلسٹز کا دفتر قائم ہے، جس نے گزشتہ سال پاکستان کو صحافیوں کے لیے دنیا کا خطرناک ترین ملک قرار دیا تھا۔ اس تنظیم کے ایشیا پروگرام کو آرڈینیٹر باب ڈیٹز کہتے ہیں کہ پاکستانی صحافیوں پر انتہا پسندوں ، حکومت ، فوج ، سیاسی قوتوں سمیت کئی اطراف سے شدید دباؤ آزادی صحافت کی راہ میں سب سے رکاوٹ ہے ۔

ان کا کہناہے کہ خطرناک حالات کا سامنا کرنے کے لیے تو آپ صحافیوں کی تربیت اورانہیں ضروری سامان مہیا کرکےتیار کرسکتے ہیں اور پاکستان میں اس پر کام بھی شروع ہوچکا ہے ۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اس سال قتل ہونے والے چھ صحافیوں میں سے چار کو ہدف بنا کر مارا گیاتھا۔ صحافیوں کو ان کے قتل پر آمادہ قاتلوں سے بچانا مشکل کام ہے ۔ حکومت مجرموٕ ں کو کیفر کردار تک پہنچا کر ایسے عناصر کی حوصلہ شکنی کر سکتی ہے ۔ لیکن ہمیں پاکستان میں ایسا دکھائی دیتا ہے کہ صحافیوں کو ہلاک کرنے والوں کے دلوں میں قانون کا کوئی خوف نہیں تھا۔

جگنو محسن کہتی ہیں کہ جب وہ امریکی صحافت کا موازنہ پاکستان سے کرتی ہیں تو یہ سوچے بغیر نہیں ر ہ سکتیں کہ پاکستانی صحافی نسبتاً زیادہ دلیر ہیں ۔

وہ کہتی ہیں کہ یہاں لوگ بہت خوش قسمت ہیں کیونکہ انہیں اتنی جدو جہد نہیں کرنی پڑتی۔ اپنی جان کی بازی نہیں لگانی پڑتی ۔ لیکن انہوں نے بھی ایک طویل جدو جہد کی ہے ہم اس سے ابھی گزر رہے ہیں ۔اور انشااللہ ہم بھی اپنی منزل پا لیں گے۔

XS
SM
MD
LG