رسائی کے لنکس

انسداد دہشت گردی کی پالیسی پر تنقید مسترد


(فائل فوٹو)
(فائل فوٹو)

پاکستانی فوج کے سربراہ نے اپنے ملک کے موقف کو دہراتے ہوئے کہا کہ مبینہ امریکی ڈرون طیاروں سے پاکستانی سرزمین پر کیے جانے والے میزائل حملوں سے نہ صرف دہشت گردی کے خلاف قومی کوششیں متاثر ہو رہی ہیں بلکہ ان کوششوں کی کامیابی لیے درکار عوامی حمایت بھی کم ہو رہی ہے۔

پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیا نی نے دہشت گردی کے خلاف اُن کے ملک کی کوششوں پر امریکی تنقید کو منفی پروپیگنڈا قرار دے کر مسترد کیا ہے۔

ایڈمرل مائیک ملن کے ساتھ ملاقات کے بعد بدھ کی رات دیر گئے جاری ہونے والے ایک سرکاری بیان میں جنرل اشفاق پرویز کیانی نے اعتراف کیا کہ دونوں ملکوں کی طویل المدت سلامتی کے باہمی مقاصد کے حصول کے لیے ارتقائی مراحل سے گزرنے والے پاک امریکہ اسٹریٹیجک تعلقات انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ ”پاکستانی فوج کی کامیاب پیش رفت اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ پاکستان دہشت گردی کو شکست دینے کے لیے پرعزم ہے۔“

بیان میں کہا گیا ہے کہ جنرل کیانی نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی کوششوں کو ناکافی قرار دینے اور فوج کے پاس اس حوالے سے مستقبل کے لیے واضح حکمت عملی نہ ہونے کے الزامات کو سختی ے رد کیا۔ پاکستانی فوج کے سربراہ کا اشارہ بظاہر امریکی انتظامیہ کی طر ف سے اس ماہ جاری کی گئی ایک جائزہ رپورٹ اور ایڈمرل ملن کے ایک تازہ تنقید ی بیان کی طرف تھا۔

رواں ماہ کے اوائل میں وائٹ ہاؤس کی ایک رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ پاکستان کے پاس شدت پسندی کو حتمی شکست دینے کے لیے حکمت عملی کا فقدان ہے جس کے باعث طالبان جنگجووٴں سے خالی کرائے گئے علاقوں پر قبضہ برقرار رکھنے کے لیے اس کی سکیورٹی فورسز کو بھاری جانی قربانیاں دینی پڑ رہی ہیں۔

انسداد دہشت گردی کی پالیسی پر تنقید مسترد
انسداد دہشت گردی کی پالیسی پر تنقید مسترد

ایک روز قبل اسلام آباد آمد کے بعد مقامی میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے امریکی چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف نے کہا تھا کہ پاکستانی فوج کے خفیہ ادارے انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) اور افغان طالبان کے حقانی نیٹ ورک کے درمیان دیرینہ رابطے امریکہ کے لیے سخت تشویش کا باعث ہیں اور پاکستان کی عسکری قیادت کے ساتھ اْن کی ملاقاتوں میں ہر مرتبہ یہ معاملہ سرفہرست ہوتا ہے۔ ”لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ آئی ایس آئی کا ہر اہلکار اس میں (حقانی نیٹ ورک) ملوث ہے۔“

پاکستانی فوج کی طرف سے جاری کیے گئے بیان کے مطابق ایڈمرل ملن نے جنرل کیانی کے ساتھ بات چیت میں پاکستانی عوام اور فوج کی کاوشوں اور قربانیوں کو سراہتے ہوئے اُنھیں یقین دلایا کہ دونوں ملکوں کی افواج کے درمیان روابط کو ٹوٹنے نہیں دیا جائے گا۔

پاکستانی فوج کے سربراہ نے اپنے ملک کے موقف کو دہراتے ہوئے کہا کہ مبینہ امریکی ڈرون طیاروں سے پاکستانی سرزمین پر کیے جانے والے میزائل حملوں سے نہ صرف دہشت گردی کے خلاف قومی کوششیں متاثر ہو رہی ہیں بلکہ ان کوششوں کی کامیابی لیے درکار عوامی حمایت بھی کم ہو رہی ہے۔

دلچسپ امر یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کی مخلوط حکومت میں شامل دو اتحادی جماعتوں نے آئی ایس آئی اور حقانی نیٹ ورک کے درمیان تعلق کے ایڈمرل ملن کے بیان پر متضاد موقف پیش کیا ہے۔

متحدہ قومی موومنٹ کے رکن قومی اسمبلی وسیم اختر نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں آئی ایس آئی اور حقانی نیٹ ورک کے درمیان روابط پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ پاکستانی اسٹبلیشمنٹ اور خفیہ ادارے ان معاملات کو بہتر انداز میں سمجھتے ہیں۔”یہ ہمارے ملک کا اندرونی معاملہ ہے ، آئی ایس آئی جانے، ہماری حکومت جانے کہ کس سے بات کرنی ہے یا نہیں ۔ کوئی تیسراملک یہ بتائے کہ کس سے تعلق رکھا جائے اور کس نہیں تو یہ بات سمجھ سے باہر ہے۔ “

انسداد دہشت گردی کی پالیسی پر تنقید مسترد
انسداد دہشت گردی کی پالیسی پر تنقید مسترد

عوامی نیشنل پارٹی کی رکن اسمبلی بشریٰ گوہر نے بلواسطہ طور پر ایڈمرل ملن کے بیان کی تائید کرتے ہوئے امریکہ اور پاکستان کے درمیان اعتماد کے فقدان کو تمام مسائل کی وجہ قرار دیا۔ ”امریکہ اور پاکستان کے درمیان جو تعلقات ہیں اُس میں یقینااعتماد کا فقدان ہے۔ “

حقانی نیٹ ورک کے بارے میں اُنھوں نے کہا کہ اس شدت پسند گروہ کی ملک میں موجودگی سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ ”اس قسم کے دہشت گردی کے تربیتی مراکز بھی ہیں ہمارے ملک میں ، ہمیں چاہیئے کہ اُن کو ختم کریں۔ ماضی میں دہشتگردوں کی مدد بھی کی گئی ہے۔“

بشریٰ گوہر کا کہنا تھا کہ پاکستانی عہدے داروں کو مل بیٹھ کر اس مسئلے کو حل کرنا ہوگا کیوں کہ یہ ملک کے مفاد میں نہیں۔ ”ہم دہشت گردوں کے ساتھ دوہری پالیسی کو چھوڑ دیں کیوں کہ ملک تباہ ہو رہا ہے۔ امریکہ کچھ بھی کہے ، ہماری انٹیلی جنس ایجنسیاں اپنی پیشہ وارانہ ذمہ داریاں نبھائیں۔“

بدھ کی شب جنرل کیانی اور ایڈمرل ملن کے درمیان بات چیت میں بھی پاکستان اور امریکہ کے قومی سلامتی کے اداروں اور عوام کے درمیان باہمی اعتماد کے فقدان کو دیرینہ مسئلہ قرار دے کر اس کا حل تلاش کرنے کی ضرورت پر زور دیا گیا۔

آڈیو رپورٹ سنیئے:

XS
SM
MD
LG