رسائی کے لنکس

’امریکہ پاکستان کے بغیر نہیں رہ سکتا‘


’امریکہ پاکستان کے بغیر نہیں رہ سکتا‘
’امریکہ پاکستان کے بغیر نہیں رہ سکتا‘

پاکستانی حکام نے امریکہ مخالف عسکریت پسند گروپ حقانی نیٹ ورک کے ساتھ تعلقات کی ایک بار پھر تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس حوالے سے امریکہ کے چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کا بیان حقیقت کے منافی ہے۔

وزیرِ اعظم یوسف رضا گیلانی نے جمعہ کو ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو میں کہا کہ پاکستان امریکہ کے ساتھ باہمی احترام اور مشترکہ مفاد کی بنیاد پر تعلقات استوار کرنا چاہتا ہے۔

’’امریکہ نا تو ہمارے ساتھ رہ سکتا ہے نا ہی ہمارے بغیر رہ سکتا ہے۔ اس لیے ان سے (امریکہ سے) میں یہی کہوں گا کہ جب وہ ہمارے (پاکستان کے) بغیر نہیں رہ سکتا تو غلط فہیموں کو دو کرنے کے لیے وہ روابط بڑھائیں۔‘‘

امریکہ کے جوائنٹ چیفس آف سٹاف ایڈمرل مائیک ملن نے جمعرات کو امریکی سینٹروں کو بتایا تھا کہ پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی القاعدہ سے منسلک حقانی نیٹ ورک کو افغانستان میں اتحادی اور افغان افواج کے خلاف استعمال کر رہی ہے۔

پاکستان نے اس سے قبل بھی افغانستان کی سر زمین پر نیٹو اور افغان افواج کے خلاف ’’پراکسی وار‘‘ یا بالواسطہ جنگ لڑنے کے الزامات کو مسترد کر چکا ہے۔

وفاقی وزیر دفاع احمد مختار نے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کو بتایا کہ ’’امریکہ کے لیے اس وقت پاکستان سے علیحدہ ہو کر رہنا مشکل ہے اور ہمیں بھی اُن کی ضرورت ہے۔‘‘

نیو یارک میں ہونے والے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شریک پاکستانی وزیر خارجہ حنا ربانی کھر پہلے ہی متنبہ کر چکی ہیں کہ اس طرح کے الزامات سے خدشہ ہے کہ امریکہ ایک اتحادی سے محروم ہو جائے۔

پاکستان کے ایک نجی ٹی وی چینل سے انٹرویو میں اُنھوں نے کہا کہ پاکستان اور اس کے عوام کو تنہا کرنے کی کوشش امریکہ کے مفاد میں نہیں ہے۔

امریکی عہدے دار اپنےاس موقف پر قائم ہیں کہ حقانی گروپ سے تعلق رکھنے والے عسکریت پسند افغانستان میں نیٹو اور افغان افواج پر حملوں میں ملوث ہیں اور اُنھوں نے شبہ ظاہر کیا ہے کہ آئی ایس آئی کے اہلکاروں نے گزشتہ ہفتے کابل میں امریکی سفارت خانے اور بین الاقوامی افواج ایساف کے صدر دفتر پر حملوں میں بھی حقانی نیٹ ورک کی حوصلہ افزائی کی تھی۔

امریکہ اور پاکستانی عہدے داروں کی طرف سے اس طرح کے بیانات کے بعد دونون ملکوں کے تعلقات میں بظاہر ایک بار پھر کشیدگی بڑھ گئی ہے جب کہ شمالی وزیرستان میں حقانی نیٹ ورک کے مبینہ ٹھکانوں کے خلاف فوجی کارروائی کے لیے پاکستان پر امریکی دباؤ میں بھی اضافہ ہوا ہے۔

گزشتہ ایک ہفتے کے دوران نیویارک میں امریکی اور پاکستانی وزرائے خارجہ کی ملاقات کے علاوہ امریکہ میں ہی سی آئی اے کے سربراہ ڈیوڈ پیٹریس اور آئی ایس آئی کے ڈائریکٹر جنرل احمد شجاع پاشا کے درمیان ہونے والی ملاقات میں بھی حقانی نیٹ ورک سے نمٹنے کا معاملہ خصوصی طور پر زیر بحث آیا۔

XS
SM
MD
LG