رسائی کے لنکس

قانون سب کے لیے برابر ہونا چاہیئے: چیف جسٹس


چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری (فائل فوٹو)
چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری (فائل فوٹو)

توہین عدالت کے متنازع قانون کے خلاف دائر درخواست گزاروں کے وکلاء اپنے دلائل مکمل کر لیے۔

توہین عدالت کے متنازع قانون کے خلاف سپریم کورٹ میں دائر درخواست گزاروں کے وکلاء نے اپنے دلائل پیر کو مکمل کر لیے ہیں۔

وکلاء نے اپنے اختتامی دلائل میں کہا کہ ملک کا آئین امتیازی قانون سازی کی اجازت نہیں دیتا اور ان کے بقول عجلت میں منظور کرائے گئے توہین عدالت کے نئے قانون میں عدلیہ کی آزادی کو سلب کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

درخواست گزاروں کے وکلاء کا کہنا تھا کہ نئے قانون میں اپیل کے طریقہ کار کا مقصد عدالتی کارروائی کو طول دینا ہے اس لیے اسے کالعدم قرار دیا جائے۔

سماعت کے دوران چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے کہا کہ پارلیمان اور عدلیہ دونوں ہی پاکستانی عوام کے حقوق کی محافظ ہیں اور اس مقدمے کا فیصلہ کچھ بھی ہو اس سے ملک کا جمہوری نظام مضبوط ہو گا۔

بینچ میں شامل جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ عدلیہ اور پارلیمان میں محاذ آرائی کا جو تاثر دیا جا رہا ہے وہ درست نہیں۔

عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس نے اس موقع پر کہا کہ قانون سب کے لیے برابر ہونا چاہیئے اور کسی ایک کو دوسرے پر برتری حاصل نہیں۔ اُنھوں نے کہا کہ پاکستان میں یہ روایت بن چکی ہے کہ اگر کسی فریق کے خلاف فیصلہ دیا جائے تو وہ عدالت کو اپنا دشمن سمجھ لیتا ہے۔

اس سے قبل جمعہ کو ہونے والی سماعت میں عدالت عظمیٰ کا کہنا تھا کہ بااختیار افراد کو اس قانون کے تحت دیے جانے والے استثنیٰ سے عدالتوں کی توہین اور عدم احترام کی حوصلہ افزائی ہو گی اور عدالتی احکامات صرف کاغذ کا ٹکڑا بن کر رہ جائیں گے۔

پاکستانی پارلیمان میں رواں ماہ منظور کیے گئے توہین عدالت سے متعلق نئے قانون کے تحت وزیراعظم، وفاقی و صوبائی وزراء اور وزرائے اعلیٰ کے اپنے فرائض کی انجام دہی کے دوران کیے گئے فیصلوں پر توہین عدالت کا قانون لاگو نہیں ہوگا۔

حزب مخالف کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی کی مخلوط حکومت اس قانون کے ذریعے عدلیہ کے اختیارات کو محدود کرنا چاہتی ہے لیکن حکومت کا موقف ہے کہ اس اقدام کا مقصد اداروں کو مضبوط بنانا ہے۔

مقدمے کی آئندہ سماعت اب منگل کو ہو گی جس میں دفاع کے وکلاء اپنے دلائل دیں گے۔
XS
SM
MD
LG