رسائی کے لنکس

پشاور ہائی کورٹ نے فوجی عدالت کے فیصلے پر عمل درآمد روک دیا


فائل فوٹو
فائل فوٹو

مجرم کے والدین نے فیصلے کے خلاف درخواست جمع کروائی تھی جس میں موقف اختیار کیا گیا کہ 2009ء میں جب اسے گرفتار کیا گیا تو اس کی عمر 14 سال کے قریب تھی۔

پاکستان کی ایک اعلیٰ عدالت نے دہشت گردی کے جرم میں فوجی عدالت سے ایک قیدی کو سنائی گئی سزائے موت پر عملدرآمد معطل کر دیا ہے۔

حیدر علی نامی مجرم کے والدین نے پشاور ہائی کورٹ میں فوجی عدالت کے فیصلے کے خلاف درخواست جمع کروائی تھی جس میں موقف اختیار کیا گیا کہ 2009ء میں جب اسے گرفتار کیا گیا تو اس کی عمر 14 سال کے قریب تھی۔

عدالت عالیہ کے دو رکنی بینچ نے منگل کو سماعت کے بعد مجرم کی سزائے موت پر عملدرآمد معطل کرنے کا حکم دیتے ہوئے وفاقی حکومت، سیکرٹری دفاع، سیکرٹری داخلہ اور مالا کنڈ میں فوج کے جنرل آفیسر کمانڈنگ سمیت دیگر متعلقہ حکام کو نوٹسز جاری کیے۔

حیدر علی کے والدین نے گزشتہ ہفتے عدالت عظمیٰ میں بھی اپنے بیٹے کی سزائے موت کے خلاف درخواست دائر کی تھی جسے سپریم کورٹ نے یہ کہہ کر ناقابل سماعت قرار دے دیا تھا کہ اس ضمن میں پہلے ذیلی عدالتوں سے رجوع کیا جائے۔

مجرم کے والدین کا موقف ہے کہ 2009ء میں ان کے بیٹے کو سکیورٹی فورسز نے گرفتار کیا لیکن اس کے بعد سے انھیں حیدر علی کے حدود اربعہ کا کچھ پتا نہیں تھا اور حال ہی میں انھیں پتا چلا کہ ان کا بیٹا ضلع لوئر دیر کی تیمرگرہ جیل میں بند ہے اور اسے فوجی عدالت کی طرف سے موت کی سزا سنائی جا چکی ہے۔

رواں سال کے اوائل میں پاکستان کے پارلیمان نے آئین میں اکیسویں ترمیم کی منظوری دی تھی جس کے بعد دہشت گردی کے مقدمات کی سماعت کے لیے فوجی عدالتیں قائم کی گئیں۔

وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار بتا چکے ہیں کہ اب تک 28 مجرموں کو فوجی عدالتوں سے سزائیں سنائی جا چکی ہیں جب کہ 46 کے خلاف مقدمات زیر سماعت ہیں۔

فوجی عدالتوں کے قیام کے خلاف بھی سپریم کورٹ میں درخواستیں دائر کی گئی تھیں لیکن رواں ماہ کے اوائل میں عدالت عظمیٰ نے انھیں مسترد کرتے ہوئے ان عدالتوں کے قیام کو برقرار رکھا تھا۔

حکومتی عہدیدار یہ کہتے ہیں کہ فوجی عدالتیں صرف دو سال کی مدت کے لیے قائم کی گئی ہیں اور بہت محتاط اور شفاف طریقے سے مقدمات کو ان عدالتوں میں سماعت کے لیے بھیجا جا رہا ہے جب کہ مقدمات کی کارروائی میں نہ صرف ملزمان کو اپنی صفائی کا پورا موقع دیا جا رہا ہے بلکہ ان سزاؤں کے خلاف انھیں اپیل کا حق بھی حاصل ہے۔

XS
SM
MD
LG