رسائی کے لنکس

دہری شہریت کا معاملہ: عدلیہ اور حکومت میں تصادم کے تاثر کو مزید تقویت


دوہری شہریت سے متعلق فیصلے میں فرح ناز اصفہانی کے بعد وفاقی وزیر داخلہ رحمن ملک بھی سینیٹ کی رکنیت سے گئے جبکہ مزید تیرہ افراد نشانے پر ہیں ۔سیاسی اتار چڑھاوٴ پر گہری نظر رکھنے والے تجزیہ کاروں اور مبصرین کے نزدیک دہری شہریت سے متعلق مقدمہ عدلیہ اور حکومت میں تصادم کے تاثر کو مزید تقویت دے سکتا ہے ۔
مبصرین کے مطابق دہری شہریت سے متعلق مقدمہ گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ حکومت اور عدلیہ کو پھر ایک دوسرے کے سامنے لا کھڑا کرے گا ۔ اس کے علاوہ اسپیکر قومی اسمبلی کی رولنگ کے خلاف دائر درخواستیں ، میمو کمیشن کی رپورٹ کے بعد سپریم کورٹ میں کارروائی جیسے اہم معاملات سے آئندہ چند ہفتوں میں ایک مرتبہ پھر عدالتی اور ایوانوں کا ماحول گرما سکتے ہیں ۔
مبصرین کے نزدیک چونکہ حکومت اور عدلیہ میں تصادم کے تاثر ابھرنے کا یہ واقعہ نہیں ہے بلکہ اتفاق سے ایسے تاثر ات کی پوری ایک لڑی موجود ہے:

عدلیہ بحالی کا مطالبہ
دو ہزار آٹھ میں موجودہ حکومت کےقیام سے ہی حکمراں جماعت پیپلزپارٹی اور عدلیہ کے درمیان بہت سے معاملات پر تصادم کا تاثر پایا گیا ۔ حکومت بنی تو حکومت کا حصہ ہونے کےباوجود مسلم لیگ ن اور دیگر جماعتوں نے عدلیہ بحالی کا مطالبہ کیا ۔حکومت نے بات نہ مانی تو ن لیگ نے حکومت چھوڑ دی ، وکلا ، دیگر جماعتوں اور سول سوسائٹی کے ہمراہ لانگ مارچ کیا جس کے نتیجے میں حکومت کو چیف جسٹس سمیت دیگر ججوں کو بحال کرنا پڑا۔

این آر او کا معاملہ
چیف جسٹس کی بحالی کے بعد حکومت اور عدلیہ میں کشیدگی کا تاثر اس وقت کھل کر سامنے آیا جب دسمبر دو ہزار نو میں سپریم کورٹ نے سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کی جانب سے جاری این آر او کو کالعدم قرار دیا ۔ اس آرڈیننس سے آٹھ ہزار سے زاہد لوگ مستفید ہوئے تھے جن میں صدر آصف علی زرداری ، بے نظیر بھٹو اور نصرت بھٹو کے نام بھی آئے ۔

ججوں کی تقرری کا معاملہ
فروری دو ہزار دس میں حکومت اور عدلیہ میں اس وقت شدید اختلافات سامنے آئے جب صدر آصف علی زرداری نے لاہو ر ہائی کورٹ کے چیف جسٹس خواجہ شریف کو سپریم کورٹ کا جج اور جسٹس ثاقب نثار کو لاہور ہائیکورٹ کا قائم مقام چیف جسٹس مقرر کرنے کا فیصلہ کیا تو چیف جسٹس آف پاکستان نے اس کا از خود نوٹس لے لیا ۔سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے صدر کا یہ فیصلہ معطل کر دیا ہے۔

جعلی ڈگریاں
مارچ دو ہزار دس میں اراکین اسمبلی کی جعلی ڈگریوں کا معاملہ سپریم کورٹ میں زیر سماعت آیا ۔ اس کیس نے بھی خوب دھوم مچائی اور آئے روز مختلف سیاسی جماعتوں کے اراکین اسمبلی جعلی ڈگری رکھنے کے جرم میں نا اہل ہوتے گئے جن میں پیپلزپارٹی ، مسلم لیگ ن اور مسلم لیگ ق کے اراکین سب سے زیادہ تھے ۔ ایک وقت میں تو ایسا لگنے لگا کہ کہیں انتخابات ہی دوبارہ نہ کرانے پڑ جائیں ۔
دوسری جانب پیپلزپارٹی نے جعلی ڈگری رکھنے کے جرم میں نا اہل ہونے والے رکن قومی اسمبلی جمشید دستی کو دوبارہ مظفر گڑھ سے ضمنی انتخابات میں کھڑا کیا اور وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے خود ان کی انتخابی مہم سے متعلق جلسے جلوسوں میں شرکت کی ۔ اور یوں جمشید دستی پھر کامیاب ہوگئے۔صدر زرداری نے نوڈیرو میں اس فیصلے کو عوام کا فیصلہ قرار دیا ۔

انیسویں ترمیم
اکتوبر دو ہزار دس میں اٹھاریں ترمیم کے تحت ججوں کی تقرری کے فیصلے پرسپریم کورٹ کی جانب سے تحفظات کا اظہار کیا اور جنوری دو ہزار گیارہ میں عدلیہ کے حکم پرملکی تاریخ میں پہلی بار آئین میں انیسویں ترمیم کی گئی جس کے تحت ججز کی تقرری کا اختیار حکومت کے بجائے عدلیہ کے پاس آ گیا ۔

چیئرمین نیب کی تقرری کا معاملہ
اکتوبر دو ہزار دس میں حکومت کی جانب سے جسٹس (ر) دیدار حسین شاہ کو چیئرمین نیب مقرر کیا گیا ۔اپوزیشن لیڈر چوہدری نثار اس کے خلاف عدالت میں چلے گئے ،عدالت نے اس فیصلے کو کالعدم قرار دیا ۔ یہ پہلا موقع تھا کہ سندھ اسمبلی اور صوبہ سندھ میں پیپلزپارٹی کے کارکنان نے عدلیہ کے فیصلے پر کھل کر رد عمل ظاہر کیا اور صوبے میں ہڑتال کی گئی۔


حج انتظامات میں بدعنوانی
دو ہزار نو میں حج انتظامات میں مبینہ بد عنوانی کی خبروں پر چیف جسٹس نے از خود نوٹس لیا اور دسمبر دو ہزار دس میں وفاقی وزیر حامد سعید کاظمی کو نہ صرف وزارت سے ہاتھ دھونے پڑے بلکہ گزشتہ چودہ ماہ سے وہ جیل کی سلاخوں کے پیچھے بھی ہیں اور ایک ہفتہ قبل ان کی راولپنڈی کے اسپیشل جج سینٹرل نے درخواست ضمانت بھی مسترد کر دی ۔

میمو اسکینڈل
دو ہزار گیارہ میں منصور اعجاز کے امریکی اخبار میں چھپنے والے مضمون نے حکومت اور عدلیہ کو ایک مرتبہ پھر آمنے سامنے لا کھڑا کیا ۔ ن لیگ کے قائد نواز شریف نے میمو اسکینڈل کی تحقیقات کیلئے سپریم کورٹ میں رٹ دائر کر دی ۔اس سلسلے میں امریکا میں اس وقت تعینات پاکستانی سفیر کو اپنے عہدے سے ہاتھ دھونا پڑے ۔ سپریم کورٹ نے اس حوالے سے میمو کمیشن قائم کیا جس نے تقریبا پانچ ماہ بعد پیرکو اپنی رپورٹ تیار کر لی ہے ۔جو سپریم کورٹ میں پیش کی جائے گی ۔

کرائے کے بجلی گھر
مارچ دو ہزارہ بارہ میں سپریم کورٹ نے کرائے کے بجلی گھروں میں اربوں روپے کی مبینہ کرپشن کے کیس میں حکومت کے غیر ملکی کمپنی کے ساتھ معاہدے کو غیر قانونی قرار دیااور پیپلزپارٹی سے تعلق رکھنے والے سابق وفاقی وزیر پانی و بجلی راجہ پرویز اشرف کے خلاف کارروائی کا حکم بھی دیا ۔ رینٹل پاور معاہدے کے خلاف مسلم لیگ ن کے خواجہ آصف اور مسلم لیگ ق کے فیصل صالح حیات نے درخواست دائر کر رکھی تھی ۔

این آر اوعمل درآمد کیس
اپریل دو ہزاربارہ میں این آر اوعملدرآمد کیس میں وزیراعظم کی تین بار سپریم کورٹ میں طلبی کے بعد انہیں تیس سکینڈ کی سزا سنا دی گئی ۔ جس کے بعد اپوزیشن سید یوسف رضا گیلانی کو وزیراعظم ماننے کو تیار نہیں ۔ اس معاملے پر پیپلزپارٹی کی قیادت نے کھل کر عدالتی فیصلے پر تحفظات ظاہر کیے ۔ پیپلزپارٹی سے تعلق رکھنے والی اسپیکر قومی اسمبلی نے اپنی رولنگ میں سید یوسف رضا گیلانی کو وزارت عظمیٰ کا اہل قرار دیا ۔اب اسپیکر کی رولنگ بھی عدالت عظمیٰ میں چیلنج ہوچکی ہے ۔

XS
SM
MD
LG