رسائی کے لنکس

پاکستان میں شعبہ تعلیم ’خاموش بحران‘سے دوچار


جائزے کے اجراء کی تقریب میں موجود شرکاء
جائزے کے اجراء کی تقریب میں موجود شرکاء

ساؤتھ ایشین فورم فار ایجوکیشن (سفید)نامی ایک غیر سرکاری علاقائی تنظیم کی سالانہ رپورٹ کے مطابق اسکول جانے والے تین سے سولہ سال تک کی عمر کے بچوں میں 50فیصد سے زیادہ اُردو یا پھر اپنی مادری زبان میں تحریر کیا ہوا ایک جملہ بھی نہیں پڑسکتے۔

اقتصاد ی امور کی وزیر مملکت حنا ربانی کھر نے کہا ہے کہ تعلیم کے شعبے کی ترقی کے لیے حکومت ترجیحی بنیاد پر کام کر رہی ہے اور قومی مالیاتی کمیشن ایوارڈ کے تحت صوبوں کو چار سو ارب روپے کی رقم منتقل کی جا رہی ہے تاکہ وہ تعلیم کے فروغ کے منصوبوں پر مالی وسائل کا استعمال کر سکیں۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے وفاقی وزیر نے کہا کہ این ایف سی کے تحت وسائل کی منتقلی کے بعد پرائمری اور سیکنڈری تعلیم کے فروغ کے سلسلے میں وفاق کا کردار محدود ہو جائے گا اور اب یہ صوبوں پر منحصر ہو گا کہ وہ کس طریقے سے اپنے ہاں اس شعبے میں بہتری لاتے ہیں۔

پاکستان خصوصاََ دیہی علاقوں میں تعیلم کے گرتے ہوئے معیار پر ناقدین مرکزی حکومتوں کو تنقید کا نشانہ بناتے آئے ہیں۔ لیکن حنا ربانی کھر کے بقول مستقبل میں اس شعبے پر اگر توجہ نہیں دی جاتی تو اس کا حساب صوبوں کو دینا ہو گا۔

پاکستان کے دیہی علاقوں میں معیارِ تعلیم پرمرتب کیے گئے اپنی نوعیت کے ایک منفرد تازہ جائزے میں درس وتدریس کی عمومی صورت حال کو’ نہایت مایوس‘ کن قراردیا گیا ہے۔

ساؤتھ ایشین فورم فار ایجوکیشن (سفید) نامی ایک غیر سرکاری علاقائی تنظیم کی سالانہ رپورٹ کے مطابق اسکول جانے والے تین سے سولہ سال تک کی عمر کے بچوں میں 50 فیصد سے زیادہ اُردو یا پھر اپنی مادری زبان میں تحریر کیا ہوا ایک جملہ بھی نہیں پڑسکتے۔

’سفید ‘ نے معیار تعلیم کے بارے میں یہ رپورٹ ’ ادارہ برائے تعلیم و آگہی‘ اور دیگر ملکی و غیر ملکی تنظیموں کے تعاون سے تیار کی ہے۔ اس میں اسلام آباد کے علاوہ سندھ، بلوچستان، خیبر پختون خواہ، پنجاب پاکستان کے زیر انتظام کشمیر اور گلگت بلتستان کے 32 اضلاع کے دیہی علاقوں میں 445 نجی اور 1,296 سرکاری اسکولوں میں تعلیم کے معیار کا جائزہ پیش کیا گیا ہے۔

رواں ہفتے اسلام آباد میں جاری کی گئی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ریاضی کا مضمون پڑھنے والوں میں صرف 44 فیصد بچے دو ہندسوں پر مشتمل تفریق کے سوالات حل کرسکے لیکن توقعات کے برعکس جائزے میں کہا گیا ہے کہ دیہی علاقوں کے ان اسکولوں میں زیر تعلیم بچوں میں سے انگریزی کا متن پڑھنے والوں کی شرح 32 فیصد ہے۔

اس جائزہ رپورٹ میں گذشتہ سال ستمبر اور نومبر کے دوران 960 دیہاتوں میں54 ہزار سے زائد بچوں کی تعلیمی اہلیت کا جائزہ لیا گیا جن میں لڑکے اور لڑکیاں شامل ہیں۔

زیر جائزہ اسکولوں میں تیسری جماعت کے صرف 44 فیصد طالب علم پہلی جماعت کی کتاب کا متن پڑھ سکتے ہیں جب کہ 80 فیصد بچے دوسری جماعت کی نصابی کتاب کا متن پڑھنے سے قاصر ہیں۔

اسکولوں کی عمومی حالت زارپر بھی اس جائزہ رپورٹ میں تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔ اس کے مطابق سرکاری پرائمری اسکولوں میں صرف 57 فیصد میں پینے کے صاف پانی اور 45 فیصد میں قابل استعمال بیت الخلاء کی سہولتیں موجود ہیں جبکہ نجی اداروں میں صورت حال نسبتاََ بہتر ہے۔

’ادارہ برائے تعلیم و آگہی‘ کی ایک عہدیدار بیلہ رضا جمیل کا کہنا ہے کہ پاکستان میں تعلیم کا شعبہ ایک ’خاموش بحران‘ کا شکار ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ جائزے میں بچوں میں معیار خواندگی کے بارے میں جو پریشان کن انکشافات سامنے آئے ہیں وہ اس بات کا تقاضا کرتے ہیں کہ صورت حال کو بہتر بنانے کے لیے سر توڑ کوششیں کی جائیں اور آئندہ نسلوں کی تعلیم و فلاح میں نمایاں سرمایہ کاری کی جائے۔

وہ کہتی ہیں کہ تعلیم کے معیار کو بہتر کرنے کے لیے فوری اور بنیادی ضرورت دیہی علاقوں میں اسکولوں کے اساتذہ کی بہتر تربیت ہے۔ ”طالب علم رٹے رٹائے الفاظ یا جملوں کو یاد تو کر لیتا ہے لیکن مفہوم سے نا آشنا رہتا ہے“ ۔

XS
SM
MD
LG