رسائی کے لنکس

’’ 90فیصدسکولوں میں لیبارٹریاں نہیں تو سائنسدان کہاں سے آئیں“


’’ 90فیصدسکولوں میں لیبارٹریاں نہیں تو سائنسدان کہاں سے آئیں“
’’ 90فیصدسکولوں میں لیبارٹریاں نہیں تو سائنسدان کہاں سے آئیں“

پاکستانی ماہرین کا کہنا ہے کہ ناقص منصوبہ بندی سیاسی عزم کا فقدان اور اب دہشت گردی کے خلاف جنگ کی مد میں ہونے والے بھاری اخراجات کے باعث ملک میں تعلیمی شعبوں کی حالت بدستور مخدوش ہے۔ اس ہفتے اقوام متحدہ کے ادارے UNESCOکی طرف سے جاری کردہ سالانہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان علاقائی ملکوں کی اس فہرست میں چوتھے نمبر پر ہے جہاں بالغ ناخواندہ افراد کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔

ماہر اقتصادیات اور سندھ حکومت کے مشیر قیصر بنگالی نے وائس آف امریکہ سے انٹرویو میں کہا کہ گزشتہ آٹھ سالوں کے دوران دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہونے والے نقصانات نے ملکی وسائل پر اگرچہ بہت دباؤ ڈالا ہے جس کے باعث تعلیمی شعبے کے لیے فنڈز کی دستیابی متاثر ہوئی ہے لیکن ان کے مطابق ملک میں تعلیمی پسماندگی کی اصل وجہ حکومتوں کی طرف سے عدم توجہی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ تاریخی اعتبار سے ریاست میں حکومت اور حکومت سے باہر ایک ایسے امیر طبقے کا غلبہ رہا ہے جو اپنے بچوں کو نجی اداروں سے معیاری تعلیم دلواتے رہے ہیں اور قیصر بنگالی کے مطابق یہی وجہ ہے کہ سرکاری شعبے میں تعلیم کی اہمیت کو ایک قومی ضرورت کے طور پر کبھی تسلیم ہی نہیں کیا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس وقت ملک کے 90فیصد سکولوں میں سائنسی تجربہ گاہیں دستیاب نہیں ہیں جس کے باعث طالب علم عملی مشقوں سے محروم ہیں جب کہ سائنس کے اساتذہ کی کمی ایک الگ سنگین مسئلہ ہے۔قیصر بنگالی کا کہنا تھا کہ ”جس ملک میں تعلیم کی صورت حال یہ ہو وہاں سائنسدان کہاں سے پیدا ہوسکتے ہیں“۔

ان کا کہنا تھا کہ مالاکنڈ ڈویژ ن اور دوسرے علاقوں میں تعلیمی اداروں کی تباہی نے بھی حصول علم کے رجحان کو بہت حد تک متاثر کیا ہے۔

شائع شدہ اعدادوشمار کے مطابق 2007ء سے 2009ء کے دوران طالبان نے صرف سوات میں لڑکیوں کے 100سے زائد سکول تباہ کیے۔ 2008ء میں جنگجوؤں کی طرف سے لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی کے نتیجے میں خوف کے باعث تقریباً سوا لاکھ زیرتعلیم لڑکیوں نے اپنے سکول چھوڑے۔

XS
SM
MD
LG