رسائی کے لنکس

یوم جمہوریت: کیا پاکستان میں ڈیموکریسی مضبوط ہو رہی ہے؟


کیا پاکستان کا معاشرہ حقیقی جمہوریت سے واقف ہے اور جمہوریت کو ہے مسائل کا حل سمجھتا ہے؟

کیا پاکستان میں جمہوریت فروغ پا رہی ہے؟ کیا سیاسی حکومت کے اپنی مدت پوری کرنے کوجمہوریت کا استحکام قرار دیا جا سکتا ہے؟ کیا ملک کی سیاسی جماعتیں بذات خود جمہوری طرز اختیار کیے ہوئے ہیں؟ کیا ریاست کے ادارے جمہوری عمل میں معاون ثابت ہو رہے ہیں؟ کیا عسکری قوتیں بھی ملک میں جمہوری تسلسل کو مستقلا قبول کر چکی ہیں؟ کیا پاکستان کا معاشرہ حقیقی جمہوریت سے واقف ہے اور جمہوریت کو ہے مسائل کا حل سمجھتا ہے؟ یہ سوالات عالمی یوم جمہوریت کے پس منظر میں وائس آف امریکہ کے پروگرام ان دا نیوز میں اٹھائے گئے۔

سینیئرقانون دان اور بزرگ پارلیمنٹیرین سینیڑایس ایم ظفر نے کہا کہ ملک میں جمہوریت کے فروغ کے لیے تمام ادارے موجود ہیں مگر ان کی کارکردگی حوصلہ بخش نہیں۔ انتخابات کا عمل اب تک تو اس لیے بھی شفاف اور درست نہیں رہا کہ سیاسی جماعتیں خود اپنے اندرانتخابات سے گریزاں ہیں۔ اس طرح سیاسی جماعتیں اور حکومتیں شخصیات کے ہی زیراثر رہتی ہیں۔ ان کے بقول پاکستان میں انتخابات اقتدار کی جنگ تو ہوتے ہیں حقیقی جمہوریت کے حصول کی کوشش نہیں اور جنگ میں سب جائز سمجھا جاتا ہے۔

مزید تفصیلات کے لیے منسلکہ آڈیو ریورٹ ملاحظہ فرمائیے۔
یوم جمہوریت - پاکستان
please wait

No media source currently available

0:00 0:00:00 0:00

سینیٹر ایس ایم ظفر کے مطابق جمہوریت کے استحکام میں مانع ایک اور عنصر ہے تعلیم کی کمی۔ جمہوریت سے ناواقف ووٹر جمہوریت کو کیسے مضبوط کرسکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں کبھی روٹی کپڑے اور کبھی اسلام کو خطرے میں دکھانے والے نعروں کے ذریعے جذباتی طور پر انتخابات پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی گئی ہے۔ تاہم ان کے بقول ان منفی پہلووں کے ساتھ ساتھ مثبت بات یہ کہ آج کا نوجوان سیاسی طور پر متحرک نظر آتا ہے اور اگر اس نے سیاسی جماعتوں میں شامل ہوتے ہوئے، انتخابی عمل کا حصہ بنتے ہوئے کردار ادا کیا تو جمہوری عمل کو دوام مل سکتا ہے۔

سابق گورنر لیفٹینینٹ جنرل (ر) معین الدین حیدر کا کہنا تھا کہ ملک میں اٹھارہویں ترمیم، صوبوں کی اختیارات کی منتقلی، بلوچستان کے لیے کوششیں جمہوریت کے اعتبار سے اچھے اقدامات ہیں لیکن یہ جمہوریت عوام کے بنیادی مسائل حل کرنے میں زیادہ کامیاب نہیں۔ سیاسی و انتظامی بدنظمی ایک چیلنج ہے تاہم ان کا کہنا تھا کہ ان حالات کے باوجود ملکی فوج سیاست میں مداخلت سے گریزاں ہے اور وہ جمہوریت کو موقع دے رہی ہے جو کہ ایک اچھی بات ہے۔

سیاسی تجزیہ کار اور سینیئر صحافی نذیر احمد ناجی نے وائس آف امریکہ سے گفتکو میں کہا کہ جمہوریت کی حمایت میں دعوے تو بڑے بڑے کیے جاتے ہیں مگر سیاسی جماعیتیں ہوں، ملکی ادارے ہوں یا میڈیا، تمام کے تمام درحقیقت جمہوریت کےمخالف ہیں۔ ان کے مطابق شخصیات اور گروہ اقتدار اور طاقت کے حامل اداروں پر قابض ہیں اور جب تک ووٹر تعلیم یافتہ نہیں ہوتااور وہ اپنی مرضی کا فیصلہ کرنے اور اس کے مطابق ووٹ دینے کا اہل نہیں ہوتا، ملک میں جمہوریت کے استحکام کی باتیں محض خیالی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ خاندانی سیاست اگر انسٹیٹیوشنلائزہو تو کوئی حرج نہیں ہوتا جیسا کہ بھارت میں راہول گاندھی برسوں تک پارلیمنٹ سے لے کر پارٹی اجلاسوں تک بیک بنچر رہا ہے اور اب جا کر وہ لیڈرشپ میں نظر آرہا ہے، اگر ایسا ہو تو پھر توبات سمجھ میں آتی ہے مگر ایسا پاکستان میں نہیں ہوتا۔
XS
SM
MD
LG