رسائی کے لنکس

آئی ایم ایف سے قرضہ،پاکستان اقتصادی معاملات درست کرے: یورپی یونین


پاکستان میں یونین کے سفیر نے واضح کیا کہ یوربی یونین بالواسطہ محصولات جن میں جنرل سیل ٹیکس بھی شامل ہے کے نفاذ یا اضافے کا مطالبہ نہیں کرتا بلکہ بلاوسطہ انکم ٹیکس کی بات کرتا ہے۔

پاکستان میں یورپی یونین کے سفیر لارس گونار وگامارک کہتے ہیں کہ اسلام آباد کی بین الاقوامی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف سے قرضے کے حصول کی کوششوں کی حمایت نواز شریف حکومت کے معاشی ڈھانچے میں بنیادی کمزوریوں کو دور کرنے اور ٹیکس دہندگان کی تعداد میں نمایاں اضافہ سے مشروط ہے۔

وائس آف امریکہ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا یورپی یونین دہشت گردی اور انتہا پسندی کی وجہ سے پاکستان کی معیشت پر دباؤ کا احساس کرتے ہوئے موجودہ حکومت کی ہر طرح کی مدد کو تیار ہے مگر اس کے لیے اسلام آباد کو بھی ’’کچھ اہم‘‘ اقدامات کرنا ہوں گے۔

’’ہم ان (پاکستان) کی ایسے ہی حمایت نہیں کریں گے۔ جیسا کہ آئی ایم ایف نے بھی بڑے واضح انداز میں کہہ دیا ہے ہم چاہیں گے کہ پاکستان اقتصادی ڈھانچے میں کمزوریوں کو دور کرے خصوصاً ٹیکس وصولی کو بڑھائے، ٹیکس نیٹ کو وسیع کرے۔۔۔۔ہم ان شرئط میں کوئی تبدیلی نہیں لارہے۔‘‘

انہوں نے واضح کیا کہ یوربی یونین بالواسطہ محصولات جن میں جنرل سیل ٹیکس بھی شامل ہے کے نفاذ یا اضافے کا مطالبہ نہیں کرتا بلکہ بلاوسطہ انکم ٹیکس کی بات کرتا ہے۔

’’ڈونرز کا پیسہ پاکستان کی ترقی کے لیے خرچ کرتے ہوئے ہم دیکھنا چاہیں گے کہ یہاں پر جن لوگوں کے پاس پیسہ ہے وہ منصفانہ انداز میں ملک کے بجٹ میں اپنا حصہ ڈالیں اور پاکستان میں ایسے کئی لوگ ہیں جن کے پاس اچھی خاصی دولت ہے۔‘‘

پاکستان کا شمار دنیا کے ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں ٹیکس دہندگان کی تعداد بہت کم ہے جو کہ اقتصادی ماہرین کے مطابق ملک کی کمزور معیشت کی ایک بڑی وجہ ہے۔

حال ہی میں کامیاب مذاکرات کے بعد موجودہ حکومت نے آئی ایم ایف سے 5 ارب 30 کروڑ ڈالر قرضے کے حصول کی درخواست کی ہے۔ تاہم یورپی یونین کے سفیر کے مطابق وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے انہیں بتایا کہ چند قرضوں کی ادائیگی کے پیش نظر اب پاکستان آئی ایم ایف سے قرضے کی مد میں 2 ارب ڈالر کی اضافی رقم چاہتا ہے اور اس کے لیے یورپی یونین ان کی مدد کرے۔

آئی ایم ایف کا ایگزیکیٹو بورڈ پاکستان کے لیے قرضے کی منظوری اور اجراء کا اعلان ستمبر میں کرے گا اور براعظم یورپ کے 28 ممالک کا اتحاد یورپی یونین کی اس بورڈ میں نمائندگی کی شرح 30 فیصد ہے۔

حکومت میں شامل عہدیداروں کا کہنا ہے کہ قرضے کے حصول کے لیے آئی ایم ایف یا کسی دوسرے ملک کی شرائط کو قبول نہیں کیا جائے گا اور رواں مالی سال کے بجٹ میں توانائی اور معیشت سے متعلق فیصلے حکومت کے ’’اپنے‘‘ ہیں۔

دریں اثناء سفیر لارس گونار نے موجودہ حکومت کی جانب سے سزائے موت پر عمل درآمد سے متعلق عائد پابندی کے خاتمے پر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ’’اس سے پاکستان سے شدت پسندی کے واقعات میں بہت زیادہ اضافہ ہوگا بجائے دہشت گرد اپنی کارروائیاں روکے۔ ہمارا اپنا تجربہ ہے کہ کسی کی جان لینے والے کو موت کی سزاء دینے سے برائی کا خاتمہ تو نہیں بلکہ ایک تسلسل شروع ہوجاتا ہے۔

لیکن وفاقی وزیر منصوبہ بندی اور ترقی احسن اقبال نے جمعرات کو صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ حکومت دیگر ممالک کی سزائے موت سے متعلق حساسیت کا احترام کرتی ہے مگر دنیا میں ہر ملک کے اپنے قوانین اور آئین ہے اور نواز حکومت پاکستان کے آئین کے تحت چلنے کی پابند ہے۔

11 مئی کے انتخابات کے انعقاد کو سراہتے ہوئے یورپی یونین کے سفیر نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف کوششوں اور قربانیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے یورپی یونین پاکستان کی معیشت کو بحال کرنے کی غرض سے اسلام آباد کو تجارتی مراعات دینے کے بارے میں ایک رپورٹ مرتب کررہا ہے جس میں اس بات کا جائزہ لیا جائے گا کہ پاکستان نے دیگر بین الاقوامی کنونشنز کے علاوہ انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے کیا اقدامات کیے ہیں۔
XS
SM
MD
LG