رسائی کے لنکس

دہشت گردی کی روک تھام، پاکستان کو شکوک کا سامنا


تجزیہ کار، مائیکل کُوگل من نے کہا ہے کہ پُرتشدد انتہاپسندی کا مسئلہ تب تک حل نہ ہوگا جب تک کہ پاکستان ’’سارے قسم کی دہشت گردی اور تمام طرح کے دہشت گرد گروپوں کے خلاف اقدام کرنے سے انکار کرتا رہے گا ‘‘

حکومتِ پاکستان نے کہا ہے کہ وہ انتہاپسندی کے انسداد کی نئی پالیسی کا اعلان کرنے کی خواہاں ہے۔ تاہم، تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پیر کے روز کوئٹہ میں ہونے والے بم حملے سے پتا چلتا ہے کہ خونریزی کو روکنے کے حوالے سے پاکستان کو ابھی بہت کچھ کرنا ہے، جس نے ملک کو پچھاڑ کر رکھ دیا ہے۔

مائیکل کُوگل من ’وڈرو ولسن سینٹر‘ میں ایک سینئر تحقیق کار ہیں۔ اُنھوں نے ’وائس آف امریکہ‘ کو بتایا کہ ’’انسدادِ دہشت گردی کی نئی پالیسی پاکستان کے لیے اچھی بات ہوگی۔ لیکن، مجھے ڈر ہے کہ یہ صرف لیپا پوتی نہ ہو، جو اس وسیع مسئلے کا احاطہ نہیں کر پائے گی‘‘۔

کُوگل من نے کہا ہے کہ پُرتشدد انتہاپسندی کا مسئلہ تب تک حل نہ ہوگا جب تک کہ پاکستان ’’سارے قسم کی دہشت گردی اور تمام طرح کے دہشت گرد گروپوں کے خلاف اقدام کرنے سے انکار کرتا رہے گا ‘‘۔

حکام کا کہنا ہے کہ انسدادِ دہشت گردی سے متعلق پاکستان کا قومی ادارہ (این اے سی ٹی اے)، جو شدت پسندی کے انسداد سے متعلق ساری حکمتِ عملی تجویز کرتا اور اُس کی نگرانی کرتا ہے، ملک میں انسدادِ دہشت گردی کی نئی قومی پالیسی تشکیل دے رہا ہے۔

ادارے کے سربراہ، احسان غنی نے ’وائس آف امریکہ‘ کو بتایا کہ ’’دو ماہ کے اندر انسدادِ شدت پسندی کی قومی پالیسی پر عمل درآمد شروع ہوگا‘‘۔

اسکول اصلاحات

غنی کے مطابق، پالیسی میں نئے قوانین مرتب کرنے کی تجویز شامل ہوگی، ساتھ ہی ملک کے موجودہ قوانین میں کچھ ترامیم کی جائیں گی۔ اِس ضمن میں شعبہ تعلیم کے اندر إصلاحات تجویز کی جائیں گی، جس میں ملک میں پھیلا ہوا مدرسے کا نظام شامل ہے، تاکہ لوگوں میں رواداری کے عنصر کو پروان چڑھانے کے لیے ’’سوچ میں تبدیلی‘‘ لائی جاسکے۔

تاہم، پشاور میں مقیم دفاعی تجزیہ کار، شاد محمد خان، جو فوج سے تعلق رکھنے والے ایک ریٹائرڈ رہنما ہیں، کہا ہے کہ نئے قوانین اور پالیسیاں تب تک مؤثر ثابت نہیں ہو سکتیں جب تک اُن پر درست طریقے سے عمل درآمد نہ ہو۔

’وائس آف امریکہ‘ کو دیے گئے ایک انٹرویو میں، شاد خان نے کہا کہ ’’معاشرے میں انتہا پسندی ہر جگہ موجود ہے، جس میں ہمارے گھر، ہمارے اسکول، دفاتر، مارکیٹ ۔۔۔شامل ہیں‘‘۔

اُنھوں نے کہا کہ جب تک پورے کے پورے نظامِ تعلیم کی اکھاڑ پچھاڑ نہیں کی جاتی، شدت پسندی پر مبنی سوچ قومی دھارے اور سیکولر اسکولوں تک کو بھی متاثر کر دے گی۔

شاد خان نے ’وی او اے‘ کو بتایا کہ ’’بچوں کو پڑھایا جاتا ہے کہ ہم (پاکستانی) دوسروں سے بہتر انسان ہیں، اور یہ کہ دیگر لوگ (اقوام) اسلام مخالف ہیں‘‘۔

بقول اُن کے ’’جب یہ بچے بڑھ کو جوان ہوتے ہیں، زیادہ تر وسوسے کا شکار ہو جاتے ہیں، جس کی بنا پر وہ انتہاپسندی کی جانب راغب ہوتے ہیں‘‘۔

خان کے مطابق، حکمراں مسلم لیگ کے معروف ارکان نے، جو اسلامی جماعت نہیں ہے، پاکستانی اسکولوں میں مروج نصاب کو تبدیل کرنے کی مخالفت کا اظہار کیا ہے۔

ماہرین کہتے ہیں کہ پاکستان کے متعدد مدارس پاکستان اور ہمسایہ افغانستان دونوں کے لیے جنگجوئی کا باعث بنتے ہیں۔

خیبر پختون خواہ کی صوبائی حکومت گذشتہ ماہ اُس وقت شدید نکتہ چینی کا شکار رہی، جس نے حالیہ دِنوں ’دارالعلوم حقا‘نیہ کے مدرسے کے لیے 30 لاکھ ڈالر کی گرانٹ منظور کی، جو متنازعہ اسلامی تعلیمی درسگاہ ہےجسے کچھ ناقدین ’’جہادی یونیورسٹی‘‘ قرار دیتے ہیں۔

طالبان ہمدردیاں

سابق سینیٹر سمیع الحق کی سربراہی والے اس مدرسے میں تقریباً 4000 طلبا قیام کرتے ہیں، جن کے لیے عام خیال کیا جاتا ہے کہ اُن کے طالبان کے ساتھ روابط اور ہمدردیاں ہیں، جو افغانستان میں مقامی اور امریکی قیادت والی بین الاقوامی افواج کے خلاف لڑ رہے ہیں۔ اِس تنظیم کو اسلامی عالم دین اور ’’طالبان کے والد‘‘ کا لقب حاصل ہے۔

کوگل من نے کہا کہ ’’پاکستان میں ایک ماحول سا ہے جو انتہاپسندی کے لیے سازگار ہے۔ مذہبی اداروں کے نیٹ ورکس کے علاوہ زوردار تفریق پر مبنی بیانیہ جاری ہے جس کے باعث سخت گیر نظریات پنپتے ہیں، جس سے جنگجو قسم کی سوچ پروان چڑھتی ہے‘‘۔

کوگل من نے الفاظ میں ’’میں نہیں سمجھتا کہ اِن معاملات کا مداوا کرنے کے حوالے سے انسدادِ دہشت گردی کی نئی پالیسی کچھ کرپائے گی۔ حاصل کلام یہ ہے کہ دہشت گردوں کو ہلاک کرنے سے دہشت گردی کا قلع قمع ممکن نہیں ہوگا‘‘۔

انسداد دہشت گردی کے ادارے کے سربراہ، غنی نے ’وی او اے‘ کو بتایا کہ سرکاری ’نیشنل ایکشن پلان‘ کے تحت جنوری 2015 سے پاکستان میں دہشت گرد نیٹ ورکس کے خلاف کارروائی کا آغاز کیا گیا، حکومت نے شدت پسندی کے خلاف کئی ایک سخت اقدامات کیے ہیں، جن میں ملک میں نو کروڑ 84 لاکھ غیر قانونی موبائل فون ’سِم‘ کارڈ بند کردیے گئے۔ تاہم، اُنھوں نے یہ بات تسلیم کی کہ اپنے ایجنڈے کو بڑھانے کے لیےاب تک کچھ دہشت گرد اور ممنوعہ گروہ کے رہنما پاکستان کے ٹیلی ویژن چنلز پر نمودار ہوتے ہیں۔

امریکی فوجی امداد

واشنگٹن میں پینٹاگان نے پاکستان کو 30 کروڑ ڈالر مالیت کی فوجی امداد روک دی ہے، چونکہ پاکستان نے حقانی دہشت گرد نیٹ ورک کے خلاف ناکافی اقدام کیا ہے۔

لیزا کرٹس، واشنگٹن میں قائم ’ہیرٹج فاؤنڈیشن‘ کی سینئر تحقیق کار ہیں۔ اُنھوں نے ’وائس آف امریکہ‘ کو بتایا کہ ’’امریکی کانگریس نے بتا دیا ہے کہ وہ پاکستان کی جانب سے حقانی جیسے نیٹ ورک گروہوں کی حمایت جاری رکھنے پر وہ ناخوش ہے، جو افغانستان میں افغان اور امریکی افواج کے خلاف لڑ رہا ہے۔ اور ہم نے دیکھا کہ ایف 16 طیاروں کے لیے امریکی حکومت کی فنڈنگ رک گئی‘‘۔

کرٹس نے کہا کہ قبائلی علاقے میں شدت پسندوں کے خلاف پاکستان کی جاری فوجی کارروائی کے نتیجے میں پاکستان میں تشدد کے واقعات کم ہوئے ہیں۔ لیکن، دیگر شدت پسند گروپوں کو بھی نشانہ بنایا جانا چاہیئے۔

کرٹس نے کہا کہ ’’ضرب عضب آپریشن‘ کے نتیجے میں پاکستان میں تشدد کی کارروائیاں کم ہوئی ہیں۔ لیکن، امریکہ کو خطے کے دیگر شدت پسند گروپوں کے خلاف بھی تشویش لاحق ہے، اور اسی معاملے پر امریکہ اور پاکستان کی ایک دوسرے سے نااتفاقی ہے‘‘۔

اُنھوں نے کہا کہ ’’اب اور تبدیلی آئے گی۔۔۔ مایوسی بڑھے گی۔ جو کوئی بھی اگلا امریکی صدر ہوگا، امکان یہی ہے کہ پاکستان کے ساتھ سخت پالیسی روا رکھی جائے گی، جب کہ طالبان کے حوالے سے پاکستان کے مؤقف کو مزید تبدیل کرنے کا مطالبہ ہوگا‘‘۔

پاکستان اِن الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہتا ہے کہ وہ ’’اچھے اور برے شدت پسندوں‘‘ میں فرق نہیں کرتا۔ پاکستان کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان، نفیس ذکریا کے الفاظ میں ’’ہم نے دہشت گردوں اور انتہا پسندوں کے خلاف فیصلہ کُن اقدام کیا ہے اور ساتھ ہی انھیں شکست دینے کے لیے دیگر ملکوں کے ساتھ وسیع طور پر تعاون بھی کرتے ہیں‘‘۔

XS
SM
MD
LG