رسائی کے لنکس

نئے قانون سے دہشت گردوں کے خلاف ’گرفت مضبوط‘ ہو گی


جنوبی وزیرستان میں آپریشن راہ نجات میں فوجی مشتبہ شدت پسندوں کو گرفتار کر کے لے جارہے ہیں
جنوبی وزیرستان میں آپریشن راہ نجات میں فوجی مشتبہ شدت پسندوں کو گرفتار کر کے لے جارہے ہیں

عسکری اُمور کے ماہر بریگیڈئر ریٹائرڈ محمود شاہ نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ نیا قانون دہشت گردوں پر گرفت مضبوط کرنے کی جانب ایک اہم پیش رفت ہے۔

پاکستان کی وادی سوات اور اس سے ملحقہ اضلاع میں 2009ء میں ’آپریشن راہ راست‘ اور اس کے بعد قبائلی علاقے جنوبی وزیرستان میں ’آپریشن راہ نجات‘ کے نام سے کی جانے والی بڑی فوج کارروائیوں کے علاوہ حالیہ برسوں میں قانون نافذ کرنے والے اداروں نے ملک کے مختلف علاقوں سے بڑی تعداد میں مشتبہ دہشت گروں کو حراست میں لیا ہے۔

لیکن انسداد دہشت گردی کے قوانین میں سقم کے باعث ان مشتبہ دہشت گردوں کو عدالت سے سزائیں نہیں دلوائی جا سکی ہیں اور جن شدت پسندوں کو سزائیں سنائی بھی گئیں ان کی تعداد بہت کم ہے۔

پاکستان میں قانونی ماہرین کے علاوہ اراکین پارلیمان اور عسکری امور پر نظر رکھنے والے تجزیہ کاروں کے علاوہ مختلف حلقوں کی جانب سے دہشت گردوں کو عدالتوں سے سزائیں دلوانے کے لیے انسداد دہشت گردی کے قوانین میں موجودہ حالات کے مطابق ترامیم اور ججوں کی تربیت کی تجاویز پیش کی جاتی رہیں۔

قومی اسمبلی نے جمعرات کو اس ضمن میں ایک اہم مسودہ قانون کی منظوری دی۔ ’فئیر ٹرائل بل‘ نامی اس قانون کے تحت خفیہ اور قانون نافذ کرنے والے ادارے مشتبہ افراد کے ٹیلی فون، ای میلز اور ایس ایم ایس کی نگرانی کر سکیں گے۔

ملک کی اعلیٰ عدالت سے اجازت کے بعد انٹیلی جنس ادارے جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے مشتبہ افراد کی نگرانی کر کے حاصل ہونے والے شواہد کو بطور ثبوت عدالتوں میں پیش کر سکیں گے۔

وزیراعظم راجہ پرویز اشرف نے اس بل کے بعد ایوان میں اپنی تقریر میں کہا کہ مجوزہ قانون کسی عام شہری کے خلاف نہیں ہے بلکہ ’’یہ ہم نے اپنے بچوں کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے، دہشت گردوں کے چنگل سے بچانے کے لیے کیا ہے جو انھیں موت کی وادی میں دھکیلنا چاہتے ہیں۔‘‘

ابتدا میں مجوزہ بل میں لگ بھگ 16 انٹیلی جنس ایجنسیوں کو شواہد اکٹھے کرنے کی اجازت دی گئی تھی لیکن بعد ازاں صرف چھ خفیہ اداروں کو یہ ذمہ داری سونپنے کی منظوری دی گئی۔


پاکستان کو ایک دہائی سے بدترین دہشت گردی کا سامنا ہے
پاکستان کو ایک دہائی سے بدترین دہشت گردی کا سامنا ہے
اس بل کے تحت قانون نافذ کرنے والے اداروں اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کے اختیارات پر بھی نظر رکھنے کا طریقہ کار وضع کیا گیا ہے تاکہ اس کے ممکنہ غلط استعمال کو روکا جا سکے۔ اختیارات کا غلط استعمال کرنے والے متعلقہ افسر کے خلاف کارروائی اور تین سال تک سزا کے بارے میں اس قانون میں شق شامل کی گئی ہے۔

عسکری اُمور کے ماہر بریگیڈئر ریٹائرڈ محمود شاہ نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ نیا قانون دہشت گردوں پر گرفت مضبوط کرنے کی جانب ایک اہم پیش رفت ہے۔

اُنھوں نے کہا کہ ترقی یافتہ ممالک میں پہلے ہی ایسے قوانین موجود ہیں اور بدلتے حالات کے تناظر اور پاکستان کو درپیش خطرات کے تناظر میں اس قانون کی اشد ضرورت تھی۔
محمود شاہ نے کہا کہ اس قانون کے تحت حاصل کیے جانے والے شواہد کی بنیاد پر مشتبہ افراد اب عدالتوں سے بچ نہیں سکیں گے۔

’’جہاں تک عام لوگوں کے خلاف اس کے استعمال کے خدشات ہیں، میں سمجھتا ہوں کہ ہمارے ادارے آہستہ آہستہ اپنے اپنے دائرہ اختیار میں کام کرنے لگے ہیں اور ہم صحیح سمت کی جانب بڑھ رہے ہیں۔‘‘

پاکستان میں ماہرین قانون کا یہ مطالبہ بھی رہا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف موثر قوانین وضع کرتے وقت اس بات کو مد نظر رکھنا ضروری ہے کہ اُن سے بنیادی انسانی حقوق متاثر نا ہوں۔

عسکری و قانونی ماہرین کہتے ہیں کہ دہشت گردوں کو عدالتوں سے سزائیں دلوانے کے لیے ججوں کو بھی مکمل تحفظ فراہم کرنے کی ضرورت ہے تاکہ وہ بلا خوف و خطر اپنے فیصلے سنا سکیں۔

پاکستان کو ایک دہائی سے زائد عرصے سے بدترین دہشت گردی کا سامنا ہے اور سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 40 ہزار سے زائد افراد بشمول سکیورٹی اہلکار پرتشدد حملوں میں اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔

پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی نے رواں سال 14 اگست کو فوجی افسران سے خطاب میں متنبہ کیا تھا کہ انسدادِ دہشت گردی کی مہم میں اختلافات ملک کو خانہ جنگی کی طرف لے جا سکتے ہیں۔

اُنھوں نے بھی دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے قانون سازی پر زور دیا تھا۔
XS
SM
MD
LG