رسائی کے لنکس

پاکستانی سیلاب زدگان کے لیے بھارتی امداد کے دوطرفہ تعلقات پر اثرات


فائل فوٹو
فائل فوٹو

اس سے قطع نظر کہ نیوکلیئر اسلحہ سے لیس یہ دونوں ہمسایہ ممالک تین جنگیں لڑ چکے ہیں، پاکستانی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ امداد کی یہ پیشکش ایسے وقت کی گئی ہے جب دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات نازک دور سے گذر رہے ہیں۔ پچھلے دو مہینوں میں، دونوں ملکوں کی فوجوں کے درمیان کئی جھڑپیں ہوئی ہیں اور اطلاعات کے مطابق دونوں طرف کے سپاہی ہلاک و زخمی ہوئے ہیں ۔

پاکستان میں اقوامِ متحدہ کے عہدے داروں نے ہفتے کے روز اعلان کیا کہ پاکستان میں سیلاب کی تباہ کاری سے نمٹنے کے لیے 46 کروڑ ڈالر کی جس فوری امداد کی اپیل کی گئی تھی، اس کا تقریباً 70 فیصد حصہ انہیں وصول ہو گیا ہے ۔ایک مہینے سے جاری سیلاب کے لیے وصول ہونے والی رقم میں بھارت کی 50 لاکھ ڈالر کی امداد بھی شامل ہے ۔

پاکستان نے جب بھارت کی پیشکش قبول کر لی تو اقوامِ متحدہ میں بھارت کے مستقل نمائندے ہردیپ سنگھ پوری نے جمعے کے روز جنرل اسمبلی کو خطاب کرتے ہوئے کہا’’سیلاب کے اثرات کا مقابلہ کرنے میں پاکستان کی مدد کے لیے ، جو کچھ ہمارے اختیار میں ہے ہم وہ سب کچھ کرنے کو تیار ہیں۔پاکستان متاثرہ آبادی کی بحالی اور مدد کے لیے جو کوششیں کر رہا ہے، ان میں ہم حکومتِ پاکستان کو اپنا مکمل تعاون پیش کرتے ہیں۔‘‘

اس سے قطع نظر کہ نیوکلیئر اسلحہ سے لیس یہ دونوں ہمسایہ ممالک تین جنگیں لڑ چکے ہیں، پاکستانی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ امداد کی یہ پیشکش ایسے وقت کی گئی ہے جب دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات نازک دور سے گذر رہے ہیں۔ پچھلے دو مہینوں میں، دونوں ملکوں کی فوجوں کے درمیان کئی جھڑپیں ہوئی ہیں اور اطلاعات کے مطابق دونوں طرف کے سپاہی ہلاک و زخمی ہوئے ہیں ۔

جولائی میں بھارت کے محکمۂ داخلہ کے سیکرٹری جی کے پِلے نے الزام لگایا کہ پاکستانی فوج کی انٹیلی جنس ایجنسی نے 2008 میں ممبئی کے حملوں کی منصوبہ بندی میں نمایاں کردار ادا کیا تھا۔ ان حملوں میں 166 افراد ہلاک ہوئے تھے ۔ یہ الزام بھارتی وزیرِ خارجہ ایس ایم کرشنا کے اسلام آباد کے دورے سے ایک روز پیشتر عائد کیا گیا۔ پاکستانی وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی کے ساتھ ان کے مذاکرات کے دوران یہ الزام بار بار زیرِ بحث آیا۔

جولائی میں اسلام آباد میں پاک بھارت وزرائے خارجہ کی ملاقات
جولائی میں اسلام آباد میں پاک بھارت وزرائے خارجہ کی ملاقات

اسلام آباد کی قائدِ اعظم یونیورسٹی میں بین الاقوامی امور کے ماہر، اشتیاق احمد کہتے ہیں کہ پاکستان میں سیلابوں پر ساری دنیا کی طرف سے جو توجہ دی جا رہی ہے، ممکن ہے کہ بھارت کی طرف سے امداد کی پیشکش اس سے متاثر ہوئی ہو۔ یہ ایسی صورتِ حال ہے جس میں ساری دنیا حصہ لے رہی ہے یہاں تک کہ افغانستان تک نے دس لاکھ ڈالر کی پیش کش کی ہے۔ ایسی صورت میں اگر بھارت کچھ نہ کرتا تو وہ اکیلا رہ جاتا۔

قائد اعظم یونیورسٹی کے پروفیسر رفعت حسین کہتے ہیں کہ دونوں ملکوں کے درمیان انسانی ہمدردی کی بنیاد پر دی جانے والی امداد کا تبادلہ، سیاسی طور پر ہمیشہ حساس مسئلہ رہا ہے ۔2005 کے زلزلے کے بعد بھارت نے امدادی کاموں کے لیے ہیلی کاپڑوں کی پرواز کی پیش کش کی تھی اور پاکستان نے اسے رد کر دیا تھا۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ ماضی میں بھارت نے پاکستانی امداد کو مسترد کر دیا تھا۔’’تقریباً دس سال پہلے گجرات میں زلزلہ آیا تھا اور پاکستان نے انسانی ہمدری کی بنیاد پر امداد کی پیشکش کی تھی اور بھارتی حکومت نے اسے ٹھکرا دیا تھا۔ پس اس بات کی پوری تاریخ موجود ہے کہ ایک ملک نے امداد دینا چاہی اور دوسرے نے اسے قبول کرنے سے انکار کر دیا۔‘‘

وہ کہتے ہیں کہ ان کے خیال میں بھارت کی 50لاکھ ڈالر کی امداد کا وعدہ ایک سوچا سمجھا سفارتی اقدام ہے، خاص طور سے اگر آپ اس کا موازنہ دوسر ے ملکوں سے ملنے والی کروڑوں ڈالر کی امداد اور پاکستان کی ضرورتوں سے کریں۔ رفعت حسین کہتے ہیں کہ بھارت کی امداد سمندر میں ایک قطرے کی مانند ہے۔ بھارت در اصل نہ صرف بین الاقوامی برادری کو بلکہ پاکستان کو بھی یہ پیغام دینا چاہتا ہے کہ اس کے ارادے نیک ہیں۔

لاہور میں بین الااقوامی امور کے تجزیہ کار رسول بخش رئیس، رفعت حسین کے خیالات سے متفق ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ بھارت کا امداد کا وعدہ محض علامتی ہے ۔ لیکن پاکستان میں کچھ عناصر اس حقیر سی رقم پر خوش نہیں ہوں گے ، خاص طور سے اگر آپ یہ دیکھیں بھارت کی معیشت پاکستان کے مقابلے میں بہت بڑی ہے ۔’’یہ ایک طرح سے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے ۔آپ کا رویہ تو ایسا ہے گویاآپ علاقے میں بالا دستی کے دعوے دار ہیں اور ذرا اپنی معیشت کی ترقی پر بھی نظر ڈالیے ۔‘‘

وہ کہتے ہیں کہ اسلام آباد کی طرف سے امداد قبول کرنے سے پاکستان کی سویلین حکومت پر دباؤ پڑ سکتا ہے۔حکومت پر پہلے ہی سیلاب کے متاثرین کی طرف سے دباؤ پڑ رہا ہے کہ انہیں امداد نہیں مِل رہی ہے ۔ رسول بخش رئیس کہتے ہیں کہ حزبِ ِ اختلاف کے کچھ حلقوں کی طرف سے پہلے ہی تنقید کی جا رہی ہے کہ ہم اپنے قومی وسائل سے کام کیوں نہیں لے رہے ہیں۔ ہم اپنے وسائل سے اپنے مسائل کا حل تلاش کر سکتے ہیں۔ آخر دوسروں کی امداد کیوں قبول کی جائے۔

امداد کہیں سے بھی آئے اور اس کی رقم کتنی ہی کیوں نہ ہو، تجزیہ کار اس بات پر متفق ہیں کہ 80 برس سے زیادہ عرصے میں آنےوالے اس بدترین سیلاب کے اثرات سے نکلنے کے لیے بہت بڑی رقم درکار ہو گی۔

XS
SM
MD
LG